09 مئی ، 2020
قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور وکٹ کیپر معین خان کا کہنا ہے کہ میدان میں گری ہوئی ٹیم کو اٹھانا وکٹ کیپر کی ذمہ داری ہے، اپنی محنت میں تسلسل نہ لاتا تو راشد لطیف جیسے باصلاحیت وکٹ کیپر کا مقابلہ کبھی نہ کرسکتا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) کی جانب سے وکٹ کیپرز کے لیے منعقدہ آن لائن ویڈیو سیشنز میں سابق کپتان معین خان نے سرفراز احمد، محمد رضوان اور انڈر 19 کرکٹ ٹیم کے کپتان اور وکٹ کیپر روحیل نذیر کو مشورے دیے۔
وکٹ کیپرز سے اپنے خطاب میں معین خان نے وکٹ کیپرکےکردار پر اہمیت دیتے ہوئے کہا کہ کرکٹ کے میدان میں گری ہوئی ٹیم کو اٹھانا اس کے وکٹ کیپر کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ میچ کے دوران اگر بولرز کی پٹائی لگ رہی ہو تو بطور وکٹ کیپر آپ کو دیگر فیلڈرز کے ساتھ مزاق یا تفریح کرنی چاہیے تا کہ کھلاڑی دباؤ کا شکار نہ ہوں۔
معین خان نے موجودہ وکٹ کیپرز کو اپنے بولرز سے ربط بڑھانے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ وہ وکٹ کے پیچھے کھڑے ہوکر وسیم اکرم اور شاہد آفریدی کے آنکھوں کے اشارے پڑھ لیا کرتے تھے، معین خان نے کہا کہ دونوں بولرز کے ساتھ مل کرانہوں نے کئی معروف بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔
معین خان نے کہا کہ 1990 کی دہائی میں راشد لطیف جیسے باصلاحیت وکٹ کیپر سے مقابلہ کرنا بہت مشکل تھا مگر انہوں نے الزام تراشی یا حیلے بہانے ڈھونڈنے کے بجائے خوداحتسابی پر اعتماد کیا اور یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ ایک روزہ میچز کھیلنے والے وکٹ کیپر ہیں۔
سابق کرکٹر نے کہا کہ وہ سخت محنت اور ذہنی مضبوطی کے لیے فٹبال اور اسکواش کھیلنے کے علاوہ جاگنگ کیا کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ سلیم یوسف اور این ہیلی سے بہت متاثر تھے اور انہی کی طرح اچھا وکٹ کیپر بیٹسمین بننے کی کوشش کرتے تھے۔
خیال رہے کہ معین خان کا 14 سالہ کیریئر 1990 سے 2004 تک محیط تھا جس میں انہوں نے 69 ٹیسٹ میچوں میں 2 ہزار 741 رنز بنانے کے ساتھ ساتھ وکٹوں کے پیچھے 148 شکار کیے جب کہ انہوں نے 219 ایک روزہ میچوں میں 3 ہزار 266 رنز بنائے اور وکٹوں کے پیچھے 287 شکار کیے۔