17 مئی ، 2020
ہیلتھ کیئر سسٹم کا معیار اور بیماریوں سے تحفظ کسی بھی ملک کی ترقی جانچنے کا ایک پیمانہ ہے اور اس پیمانے کو بہتر نہ بنانے سے مسائل جنم لیتے ہیں۔
ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان میں سرکاری اسپتالوں کی تعداد ایک ہزار 279 ہے جب کہ بنیادی مراکز صحت 5 ہزار 527 ہیں۔
ملک میں رولر ہیلتھ سنٹرز 686 ہیں جب کہ ڈسپنسریز کی تعداد 5 ہزار 671 ہے اور ان سب کے لیے رجسٹرڈ ڈاکٹرز کی تعداد 2 لاکھ 20 ہزار 829 ہے یعنی 963 پاکستانیوں کے لیے صرف ایک ڈاکٹر ہے اور ایک ہزار 608 پاکستانیوں کے لیے اسپتال میں ایک بیڈ کی سہولت موجود ہے۔
عوام کی صحت حکومتوں کی اولین ترجیح کبھی نہیں رہی، یہی وجہ ہے کہ ملک کے صحت کا بجٹ ہمیشہ مجموعی جی ڈی پی کا ایک فی صد سے بھی کم رہا ہے۔
گزشتہ مالی سال کے دوران وفاق اور صوبوں کے صحت کا مجموعی بجٹ 203 ارب 74 کروڑ روپے تھا جو جی ڈی پی کا محض صفر اعشاریہ 53 فیصد بنتا ہے۔
ادارہ شماریات کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار 520 افراد پر صحت کے بجٹ کو تقسیم کیا جائے تو سالانہ فی کس 980 روپے 58 پیسے اور ماہانہ 81 روپے 71 پیسے بنتے ہیں۔
گزشتہ مالی سال کے اقتصادی سروے کو دیکھیں تو 11 کروڑ 12 ہزار 442 افراد پر مشتمل پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب نے صحت پر 90 ارب 10 کروڑ خرچ کیے یعنی ایک سال کے دوران ایک فرد کی صحت کے لیے 818 روپے 99 پیسے اور ماہانہ 68 روپے 25 پیسے۔
آبادی کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر آنے والے صوبہ سندھ نے اپنے 4 کروڑ 78 لاکھ 86 ہزار 51 شہریوں کی صحت پر 62 ارب 50 کروڑ خرچ کیے یعنی سالانہ 1305 روپے فی شہری اور ماہانہ 108 روپے 76 پیسے۔
بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ 23 لاکھ 44 ہزار 408 افراد پر مشتمل ہے اور اس نے صحت کا بجٹ 15 ارب 20 کروڑ رکھا یعنی سالانہ 1231 روپے 32 پیسے ایک شہری اور ماہانہ 102 روپے 61 پیسے۔
2018-2019 میں خیبر پختونخوا کا فاٹا کے ساتھ انضمام نہیں ہوا تھا جس کے باعث کے پی نے اپنی 3 کروڑ 52 لاکھ 3 ہزار 371 افراد پر مشتمل آبادی کے لیے 23 ارب 50 کروڑ روپے رکھے تھے۔
یوں خیبرپختونخوا نے سالانہ 769 روپے 90 پیسے فی فرد جب کہ ماہانہ 64 روپے 15 پیسے خرچ کیے۔
وفاق نے گزشتہ مالی سال صحت کے شعبے میں 12 ارب 40 کروڑ خرچ کیے جو کہ وفاقی دارلحکومت کے شہریوں کے علاوہ وفاق کے دائر ہ ختیار میں آنے والے علاقوں کے لیے بھی تھے۔