میر شکیل کی گرفتاری کیخلاف احتجاجی کیمپ میں نامعلوم افراد گولیاں پھینک کر فرار

سیاہ ویگو میں بیٹھے نامعلوم افراد نے کیمپ کے سامنے نا زیبا زبان استعمال کی اور پھر پستول کی گولیاں کیمپ کی جانب پھینک کر فرار ہوگئے— فوٹو: فائل

جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کی غیر قانونی گرفتاری کے خلاف مری روڈ راولپنڈی پر احتجاجی کیمپ 67 روز سے جاری ہے۔

آج دوران احتجاج ناخوشگوار واقعہ اس وقت پیش آیا جب کیمپ کی جانب نامعلوم افراد نے گولیاں پھینکیں اور فرار ہوگئے۔

طوفانی بارش ہو یا تپتی دھوپ، جنگ، دی نیوز اور جیو کے صحافی قومی احتساب بیورو (نیب)کے ہاتھوں میر شکیل الرحمن کی غیرقانونی گرفتاری اور آزادی صحافت کیلئے احتجاجی کیمپ میں فولادی ارادوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔

پیر کے روز بھی احتجاج جاری تھا کہ تقریبا 4:30 بجے ایک سیاہ ویگو میں بیٹھے نامعلوم افراد نے احتجاجی کیمپ کے سامنے نا زیبا زبان استعمال کی اور پھر پستول کی گولیاں کیمپ کی جانب پھینک دیں اور فرار ہوگئے۔

چیئرمین جوائنٹ ورکرز ایکشن کمیٹی ناصر چشتی کا کہنا ہے کہ مشتبہ شخص نے پہلے نعرے بازی کی، ہم سنبھل نہیں پائے تھے کہ اس نے مٹھی بھر گولیاں ہمارے ساتھیوں کے اوپر پھینکیں، ہم نے پیچھا کرنے کی کوشش کی پر وہ تیزی سے نکل گیا۔

جوائنٹ ورکرز ایکشن کمیٹی کے رکن منیر شاہ نے بتایا کہ ہم نے دیکھا کہ آزادی صحافت کے کیمپ پر گولیاں برسانے والا شخص کس بےبسی کے عالم میں نعرے لگاتا جارہا تھا۔

سیکرٹری جنرل پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) ناصر زیدی نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'تم نے گولیاں ہم پر نہیں بلکہ آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق پر ماری ہیں۔

جیو نیوز سے وابستہ صحافی آصف علی بھٹی کا کہنا ہے کہ اس واقعے اسے ایک سازش کی بو آرہی ہے کیونکہ جو پر امن لوگ بیٹھے ہیں انہیں اٹھانے کا بہانا تلاش کیا جارہا ہے۔

اس ناخوشگوار واقعہ کے باوجود جیو اور جنگ کے صحافیوں نے عظم ظاہر کیا ہے کہ وہ دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوں گےاور آزادی صحافت کی جنگ جاری رکھیں گے۔

خیال رہے کہ لاہور کی احتساب عدالت نے جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کے جوڈیشل ریمانڈ میں یکم جون تک توسیع کرکھی ہے۔

میر شکیل الرحمان کے کیس کا پس منظر

میر شکیل الرحمان نے 1986 میں لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں 54 کنال پرائیویٹ پراپرٹی خریدی، اس خریداری کو جواز بنا کر قومی احتساب بیورو (نیب) نے انہیں 5 مارچ کو طلب کیا، میرشکیل الرحمان نے اراضی کی تمام دستاویزات پیش کیں اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا۔

نیب نے 12 مارچ کو دوبارہ بلایا، میر شکیل انکوائری کے لیے پیش ہوئے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق اراضی کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے دوران اُن کی گرفتاری بلا جواز تھی کیونکہ نیب کا قانون کسی بزنس مین کی دوران انکوائری گرفتاری کی اجازت نہیں دیتا۔

لاہور ہائیکورٹ میں دو درخواستیں، ایک ان کی ضمانت اور دوسری بریت کے لیے دائرکی گئیں، عدالت نے وہ درخواستیں خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ مناسب وقت پر اسی عدالت سے دوبارہ رجوع کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں :