خیرات کا کوئی حساب کتاب ہے یا نہیں؟

فوٹو: فائل

توبہ ہی بھلی۔ کہتے ہیں خیرات دینے میں ہم لوگ مہارت رکھتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ یہ تو کچھ بھی نہیں، خیرات مانگنے میں ہم لوگ کمال مہارت رکھتے ہیں۔ خدا خدا کر کے یہ مہینہ ختم ہوا۔ پورے مہینے ٹیلی وژن پر اتنی خیرات مانگی گئی کہ ہو نہ ہو کہیں انبار ضرور لگے ہوں گے۔ 

خدا جانے کون کون سے کونے کھدروں سے خیراتی ادارے نکل آئے اور کیسے کیسے جتن کر کے ہر شام لاکھوں اکٹھا کیے۔ کورونا کے ساتھ اب ایک ٹیلی تھون کی وبا پھیلی ہے۔ ٹی وی پر کئی کئی گھنٹے درد بھری داستانیں سنتے ہوئے گزرے۔ بعض مانگنے والے تو ہمیں یوں بھی عزیز ہیں کہ ہم برسوں سے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں پر کچھ طلبگار ایسے نکلے جن سے نہ جان نہ پہچان۔

یہ ٹیلی تھون کا سودا کرنے والے بتاتے نہیں، اس کام پر بہت بھاری خرچہ آتا ہے، خود ٹی وی والے اپنی خدمات مفت نہیں فراہم کرتے، بھاری پیسے لیتے ہیں، پھر کہیں سے لاکر کسی مشہور آدمی کو بٹھایا جاتا ہے، وہ اس خوبی سے پیسے مانگتا ہے کہ جیسے اس کے دل میں درد اٹھ رہا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ اسکرین پر نمودار ہونے کی بھاری فیس وصول کرتا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یوں اکٹھا ہونے والی رقم کا بہت تھوڑا سا حصہ امدادی کاموں پر خرچ ہوتا ہوگا۔

لوگ صحت اور تعلیم کے نام پر خوشی خوشی عطیات دیتے ہیں، مانگنے والے بھی ان ہی دو شعبوں کے نام پر جھولی پھیلاتے ہیں۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ یہ جھولی پھیلانے کا شغل پاکستانی ہی کیوں اختیار کرتے ہیں۔ 

دنیا میں مسلم ملکوں کی کمی نہیں، وہ کیوں نہیں ہاتھ پھیلاتے۔ ہم نے آج تک انڈونیشیا یا ملائیشیا والوں کو پیسے مانگتے نہیں دیکھا۔ پاکستان والوں کو ایک اور کمال یہ حاصل ہے کہ وہ صرف اپنے وطن کے نام پر نہیں، دور دراز افریقی ملکوں کے نام پر بھی عطیات مانگ رہے ہوتے ہیں۔ 

کچھ پاکستانی ادارے کشمیر کے نام پر یوں مانگتے ہیں کہ گمان ہوتا ہے وہ وادیٔ کشمیر اور جموں کے ضرورت مندوں کے نام پر مانگ رہے ہیں حالانکہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کا ایسا تسلط ہے کہ یہ لوگ وہاں امداد تو کیا پہنچائیں، قدم بھی نہیں رکھ سکتے، مگر کشمیر کشمیر کی صدا یوں لگاتے ہیں جیسے لائن آف کنٹرول پھلانگ کر ستم زدہ کشمیریوں کے گھر راشن سے بھر دیں گے۔ 

حیرت اس بات کی ہے کہ کوئی ان سے پوچھتا بھی نہیں۔ مجھے بالکل معلوم نہیں کہ خیرات مانگنے والوں کا کہیں کوئی حساب کتاب بھی رکھا جاتا ہے یا پوری آزادی ہے کہ جتنا چاہیں اور جیسے چاہیں خرچ کریں۔ چیرٹی کے نام پر رقم لینے والوں پر برطانیہ میں تو کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے اور ایک ایک پیسے کا حساب لیا جاتا ہے۔ 

پاکستان میں ایسی کوئی نگرانی مجھے تو نظر نہیں آتی۔ ویسے بھی وہاں کسی پر کڑی نظر رکھنے کا چلن ہی نہیں۔ کون شکر برآمد کر رہا ہے اور کون زرِ تلافی کے نام پر کروڑوں کی رقم اپنی تجوریوں میں بھر رہا ہے کسی کو خبر نہیں۔ اس پر پاکستان کے وہ کاروباری صاحب یاد آتے ہیں جنہوں نے معمولی پڑھے لکھے دو آدمیوں کو نوکر رکھا ہوا ہے جن کا کام صرف اور صرف نوٹ گننا ہے۔ اور یہی نہیں، ان کی مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں۔ وطن کے معاملے میں کیسے بے رحم لوگ ہیں، حیران ہوں کہ جب ان کے تہہ خانے بھی بھر جائیں گے تو اس کے بعد ہاتھ آنے والی نوٹوں کی گڈیاں کہاں سمائیں گی۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی خیرات کے طلبگاروں کی۔ ایک بات پوری دیانت داری سے تسلیم کرنا پڑے گی کہ صحت، تعلیم اور فلاح کے نام پر پاکستان میں کتنے ہی ادارے ایسا اعلیٰ کام کر رہے ہیں اور خاص طور پر غریبوں اور مسکینوں کے لئے ایسی خدمات انجام دے رہے ہیں کہ سرکا ر بھی ان کے آگے ہیچ ہے۔ کئی اسپتال اور تعلیمی ادارے ایسے ہیں جن کی شاخیں پورے ملک میں پھیل چکی ہیں اور وہ ہر علاقے میں ضرورت مندوں کا سہارا بنے ہوئے ہیں۔ 

یہ بے مثال ادارے عوام ہی کے عطیات سے چلتے ہیں اور ان کی خدمات کو دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ ان کا ہاتھ کبھی تنگ نہ ہونے پائے، ان کے کام میں رکاوٹ نہ کھڑی ہو، ان کی راہ میں کوئی دشواری سر نہ اٹھائے۔ بچوں کو تعلیم مل جائے اور مساکین کو علاج نصیب ہوجائے تو اور کسی کے نصیب جاگیں نہ جاگیں، غریب عوام کے دن ضرور پھریں گے۔ بس یہ ہے کہ دیانت اور صداقت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں تو یہ امدادی ادارے سب کی نہیں تو بہت سوں کی دعائیں لیں گے۔ میں ایک بات جانتا ہوں، ان میں بعض تو اتنے بے غرض ہیں کہ کوئی کہے کہ آپ کو بڑا اجر ملے گا تو یہ دوسری طرف دیکھنے لگتے ہیں، جیسے کچھ سُنا ہی نہ ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔