ملکی وسائل اشرافیہ کے ہاتھوں میں

فوٹو: فائل

سوڈان میں ہونے والی قحط سالی جس میں ہزاروں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، کے دوران لی گئی ایک تصویر جس میں بھوک سے نڈھال ایک بچی کے کچھ فاصلے پر بیٹھا ایک گدھ اس کے مرنے کا انتظار کررہا ہے، کو تصویر لینے والے فوٹو گرافر نے "The Vulture and the little girl" کا عنوان دیا جسے سال کی بہترین تصویر قرار دیا گیا اور فوٹو گرافر کیون کارٹر جس کا تعلق جنوبی افریقا سے تھا، کو اِس تصویر پر Pulitzerایوارڈ سے نوازا گیا۔

اس تصویر نے دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑ دیا اور کہا گیا کہ تصویر میں ایک نہیں بلکہ دو گدھ ہیں، ایک وہ جو بچی کے مرنے کا انتظار کررہا ہے اور دوسرا عدم مساوات پر مبنی نظام جو یہ حالات پیدا کرنے کا ذمہ دار بنا، بعد ازاں فوٹو گرافر جسے یہ واقعہ ملامت کرتا رہا، نے دلبرداشتہ ہوکر خود کشی کرلی۔

دنیا میں گزشتہ چند دہائیوں کے دوران عدم مساوات میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی 50فیصد دولت ایک فیصد سے بھی کم لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔

آکسفیم انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے نصف وسائل اور دولت پر 62ارب پتی خاندانوں کا قبضہ ہے جن کے اثاثوں میں ہر سال کئی گنا اضافہ ہورہا ہے جبکہ دنیا کے کروڑوں غریب دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں۔

اِسی طرح دنیا کی 10بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کارپوریشنز کے پاس موجود وسائل دنیا کے 180ممالک کی معیشت سے زیادہ ہیں۔ پاکستان بھی اس عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے متاثر ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 22کروڑ کی آبادی میں سے 99فیصد عوام غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ایک فیصد اشرافیہ طبقہ پاکستان کے وسائل پر قابض ہے۔

یہ اشرافیہ اور اُن کی کمپنیاں پاکستان میں اپنی مرضی کے مالیاتی قوانین بنواتی ہیں جس کی واضح مثال آٹے چینی بحران پر حالیہ رپورٹ ہے جس میں اِن افراد کی لوٹ مار کی نشاندہی کی گئی ہے جبکہ آئی پی پیز اسکینڈل پر چونکا دینے والی رپورٹ بھی اسی اشرافیہ طبقے کی بےحسی کا کھلا ثبوت ہے۔

جس نے اپنے منصوبوں میں اوور انوائسنگ کرکے اور حکومت سے اپنے مفاد کے کنٹریکٹ ڈالر میں منظور کرواکر اپنی سرمایہ کاری پر ڈالر میں 60سے 70فیصد سالانہ منافع بٹورا جس نے ملک کو اربوں ڈالر قرضوں کے شکنجے میں جکڑ دیا اور بجلی کی قیمت خطے میں سب سے مہنگی ہو گئی لیکن حکومت سب کچھ جانتے ہوئے بھی بےبس تماشائی بنی بیٹھی ہے کیونکہ ان آئی پی پیز کو حکومتی گارنٹیاں حاصل ہیں اور اگر ان کیخلاف کوئی ایکشن لیا گیا تو یہ آئی پی پیز حکومت کو انٹرنیشنل کورٹس میں گھسیٹ سکتی ہیں جس کے بعد ہم ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔

آج جب پوری دنیا کورونا وائرس کے محاذ سے نبردآزما ہے، پاکستان کو دو محاذوں کا سامنا ہے۔ ایک کورونا وائرس اور دوسرا اس کے نتیجے میں تباہ ہونے والی معیشت۔ ایک رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس سے قبل پاکستان کی 35فیصد سے زائد آبادی سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی لیکن کورونا وائرس اور لاک ڈائون کے نتیجے میں مزید 10فیصد افراد سطح غربت کی لکیر سے نیچے آگئے ہیں اور اُن کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی ناممکن ہوتا جارہا ہے۔

موجودہ صورتحال میں اب تک 2کروڑ سے زائد افراد بیروزگار ہو چکے ہیں جبکہ بیرون ملک سے بھی بڑی تعداد میں بیروزگار پاکستانی وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔

بھارت میں صاحب حیثیت لوگ کورونا سے متاثرہ افراد کی مدد کیلئے میدان میں آ گئے ہیں۔ بھارت میں یہ قانون لاگو ہے کہ تمام کارپوریٹ ادارے اپنے منافع کا 2فیصد CSR پر خرچ کریں گے لیکن اس کے برعکس پاکستان کا اشرافیہ طبقہ خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے جبکہ وہ کارپوریٹ ادارے جو سالانہ اربوں روپے کا منافع ظاہر کرتے ہیں، کی CSRسرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اینگرو کے چیئرمین حسین دائود نے کورونا متاثرین کیلئے 100 کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے لیکن اس سلسلے میں دوسرا کوئی نام سامنے نہیں آیا۔

پاکستان میں اشرافیہ کی بےحسی کو دیکھتے ہوئے مجھے خوف ہے کہ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے فرق سے ملک میں خدانخواستہ Food Riots جنم لے سکتے ہیں جو امن و امان کی صورتحال کیلئے نہایت مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔

کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے نتیجے میں دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام میں بے شمار کمزوریاں سامنے آئی ہیں اور ملکی وسائل اور دولت اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بن گئی ہے۔ دولت کی اس غیر مساوی تقسیم کے باعث ایک طرف امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جارہا ہے۔

پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ دولت مند ہونا کوئی برائی نہیں لیکن اگر دولت غریبوں کے حق پر ڈاکہ ڈال کر بنائی جائے تو میں اس نظام کے خلاف ہوں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کورونا وائرس امیر اور غریب میں تمیز نہیں کرتا اور ہم کسی غریب کی قبر پر اپنی خوشیوں کا محل تعمیر کرکے کبھی خوش اور محفوظ نہیں رہ سکتے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔