جناح گارڈن کی بند گلی میں زندگی کب لوٹے گی؟

فوٹو: فائل

جناح گارڈن کی بند گلی پھر سے کب آباد ہو گی؟ طیارہ حادثہ کو 10 روز گزرنے کے بعد بھی متاثرہ مکینوں کو اس سوال کا جواب اب تک کوئی نہیں دے سکا ہے۔

22 مئی کو ہونے والے طیارہ حادثے نے جہاں 90 سے زیادہ جانیں لے لیں، وہیں اس حادثے نے کئی لوگوں کے سَروں سے اُن کی چھت بھی چھین لی، کس کو معلوم تھا کہ ایک لمحے میں ہی ان کے گھر کھنڈر کی مانند ہوجائیں گے۔

یہاں کے مکینوں کو اب اپنی ہی گلی سے خوف آنے لگا ہے، گلی کی فضاء میں اب بھی طیارے کی گونج، چیخ و پکار اورخوف موجود ہے اور شاید یہ بہت عرصے تک یہاں موجود رہیں۔

مہنگائی کے اس دور میں انسان اپنا آشیانہ بنانے کے لیے ایک ایک پیسہ جوڑتا ہے اور اپنی زندگی کی تمام تر جمع پونجی گھر کو بنانے میں لگا دیتا ہے، ایسے میں اگر اچانک ہی کسی حادثے میں اس کا گھر تباہ ہوجائے تو یہ بے یار و مددگار انسان کس سے مدد طلب کرے گا؟

طیارہ حادثے کے فوراً بعد متاثرہ مکینوں کو صرف ایک چیز کا انتظار تھا وہ یہ کہ حکومت کی جانب سے ان کی گھروں کی مرمت کے حوالے سے کوئی بیان جاری کیا جائے، بعد ازاں وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر گورنر سندھ عمران اسماعیل نے اعلان کیا کہ حادثے میں متاثر ہونے والے گھروں اور املاک کا سارا خرچہ حکومت برداشت کرے گی۔

حکومت کے اس بیان کے بعد متاثرہ مکینوں کو کچھ اطمینان ہوا لیکن اب گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ ان کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ جناح گارڈن کی اس گلی میں طیارے کا ملبہ اٹھایا جاچکا ہے لیکن بنیادی ضروریات کی سہولیات جن میں بجلی اور گیس شامل ہیں، ان کو بحال نہیں کیاگیا ہے۔

جناح گارڈن کی متاثرہ گلی کے مکین عمار احمد شیخ کا کہنا ہے کہ ان کے گھر میں کُل 4 افراد ہیں جب کہ حادثے میں ان کو تقریباً 25 لاکھ کے قریب نقصان ہوا۔

 ان کا کہنا ہے کہ حادثے کے تیسرے روز کوئی ٹیم گھر کا معائنہ کر نے کے لیے آئی تھی لیکن اس کے بعد کسی نے ان سے رابطہ نہیں کیا اور گھر کی مرمت کے حوالے سے بھی کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔

دوسری جانب ایک اور متاثرہ گھر کے مکین یاسر عباس نے بتایا کہ ان کے گھر کو بھی تقریباً 20 لاکھ کے قریب نقصان ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حادثے کو 3 دن گزرنے کے بعد آنے والی ایک ٹیم سے ان کے والد صاحب کی بحث بھی ہوگئی تھی کیونکہ وہ درست طریقے سے گھر کا معائنہ نہیں کر رہے تھے گھر کا جو حصہ تھوڑی صحیح حالت میں تھا وہ اس جگہ کی ویڈیو بنا رہے تھے جب کہ جس حصے کا سب سے زیادہ نقصان ہوا اس حصے کو وہ لوگ دیکھ بھی نہیں رہے تھے۔

یاسر عباس نے بتایا کہ کوئی انسان اپنی فیملی کو لے کر کسی رشتہ دار کے ہاں کب تک رہ سکتا ہے، اس لیے حادثے کے بعد سے وہ اپنی فیملی کے ہمراہ ائیرپورٹ ہوٹل میں رہائش پزیر ہیں جہاں کے کمروں کی حالت رہنے قابل نہیں ہیں اور وہ مجبوراً یہاں رہ رہے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں کئی فضائی حادثات میں قیمتی جانوں کا نقصان ہوچکا ہے، اس بار بھی حکومتوں کی جانب سے کئی بلند و بانگ دعوے کیے گئے ہیں، عوام دیکھنا چاہتی ہے کہ اس بار حکومت کیا ٹھوس اقدامات کرے گی کہ مستقبل میں ایسے سانحات سے بچاجاسکے۔

 اس وقت ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ حکومت طیارہ حادثے میں جاں بحق مسافروں کے لواحقین کو فوری معاوضہ دے اور جناح گارڈن کے متاثرہ مکینوں کے نقصان کا ازالہ کرے۔

مزید خبریں :