01 جون ، 2020
پاکستان کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، عوام کا بُرا حال ہے۔ کورونا ایک طرف روز بروز زیادہ سے زیادہ زندگیاں نگل رہا ہے تو دوسری طرف اس نے ملک کیساتھ ساتھ عوام کو بھی معاشی طور پر بدحال کر دیا ہے، اوپر سے ٹڈی دَل کے عذاب نے ہمیں آ پکڑا اور خطرہ یہ ہے کہ اس سے فصلوں کو کھربوں روپے کا نقصان ہوگا جو پاکستان کی زراعت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہونے کیساتھ ساتھ اس ملک میں خوراک کے شدید بحران کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ٹیکس بڑھنے کے بجائے کم ہو رہے ہیں۔
اخراجات ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے۔ ٹیکس چار ہزار ارب روپے بھی جمع نہیں ہو رہے لیکن اخراجات سات ہزار ارب روپے سے بھی زیادہ ہیں۔ کورونا سے پہلے ہی معاشی حالات بہت سنگین تھے جو اب اس قدر ابتر ہو چکے ہیں کہ معلوم نہیں کیسے سنبھلیں گے۔ ادارے ہیں تو اُن کا بُرا حال ہے۔
پی آئی اے نہ صرف سفر کرنے کے لیے خطرناک ترین ایئر لائنز بن چکی ہے بلکہ اس کا شمار اُن اداروں میں ہوتا ہے جو منافع کمانے کے بجائے قومی خزانہ کھائے جا رہے ہیں، یہی حال ریلوے کا ہے جس کے بارے میں یا مالی نقصان یا پھر حادثات کی خبریں ہی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ انرجی اور گیس سیکٹرز کو دیکھیں تو وہ روزانہ کی بنیاد پر اربوں کا نقصان پہنچا رہے ہیں جس کی وجہ سے سرکلر ڈیٹ اٹھارہ کھرب روپے سے بھی اوپر پہنچ چکا ہے۔
اگر پاکستان اسٹیل اور کئی دوسرے ادارے ہیں تو وہ بھی کچھ دینے کے بجائے اربوں کھربوں کھائے جا رہے ہیں۔ سرکاری محکمے ہیں تو اُن کی کارکردگی خراب، بیورو کریسی ہے تو وہ کام نہیں کرر ہی۔ تعلیم، صحت سمیت کسی شعبہ کا نام لے لیں ہر طرف حالات خراب ہیں۔
عدالتی نظام انصاف دینے کے بجائے انصاف کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے اور اب تو وزیراعظم عمران خان نے بھی کہہ دیا کہ عوام کا موجودہ نظام عدل پر اعتماد متزلزل ہو چکا ہے۔ گویا جس طرف دیکھیں پریشانی ہی پریشانی اور مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود اور کورونا اور ٹڈی دل کے عذاب کے دوران بھی سیاستدان ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے ہی نظر آ رہے ہیں۔
لوگوں کا بُرا حال، ملک کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے لیکن سیاستدان ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے میں ہی مصروف ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں لیکن کورونا پر بھی سیاست ہو رہی ہے۔ جب سیاستدان ایک دوسرے کے گلے پڑے رہیں گے تو اُن مشکلات اور مسائل کے پہاڑ کو کون حل کرے گا جن کا اس ملک اور عوام کو سامنا ہے اور جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں؟
یہ صورتحال اگر مایوس کن نہیں تو شدید فکر مندی والی ضرور ہے۔ جب سیاستدان ایک دوسرے سے ہر وقت ہر معاملہ پر لڑتے رہیں گے تو قومی اور عوامی مسائل کا حل کیسے ممکن ہوگا؟ بہت دفعہ لکھا جا چکا، بار بار کہا جا چکا کہ کم از کم معیشت، قومی سلامتی، گورننس، ادارہ سازی اور احتساب وغیرہ جیسے معاملات پر ہی کوئی اتفاق رائے کر لیں لیکن یہ بھی نہیں ہو رہا۔ وزیراعظم عمران خان ہیں تو وہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں، اپوزیشن ہے تو وہ تحریک انصاف کی حکومت کو جائز ماننے پر راضی نہیں۔ یہی کچھ ماضی میں ہوتا رہا۔ یہاں حکومت اور اپوزیشن کو ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف لڑتے جھگڑتے ہی دیکھا۔
کیسے حکومت بچائی جائے اور کیسے حکومت گرائی جائی، یہی کھیل یہاں ہمیشہ کھیلا جاتا ہے، اسی کو ہم سیاست کہتے اور سمجھتے ہیں، اسی کو یہاں جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے اور اسی کی وجہ سے اصل کھیل کھیلنے والوں کو سیاستدانوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح نچانے کا موقع ملتا ہے۔ نجانے کب سیاستدان سیکھیں گے؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔