پاکستان
Time 12 جولائی ، 2020

سعید غنی حقیقی مسئلے سے توجہ ہٹانےکی ناکام کوشش کررہے ہیں: علی زیدی

وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے سندھ کے وزیرتعلیم کے بیان پر ردعمل میں کہا ہے کہ سعید غنی حقیقی مسئلے سے توجہ ہٹانےکی ناکام کوشش کررہے ہیں۔

اپنے بیان میں علی زیدی کا کہنا تھا کہ عزیر بلوچ برسوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حراست میں ہے اور اس کی سرپستی کرنے والے طاقتور سیاستدانوں کے نام جے آئی ٹی میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی میں نام آنے والے طاقتور سیاستدان آزاد گھوم رہے ہیں، انہیں قانون کے کٹہرے میں آنا چاہیے، نازبلوچ پی ٹی آئی میں تھیں اور اب پیپلزپارٹی میں ہیں، کیاوہ  اب بھی اپنے گزشتہ نظریے پرقائم ہیں؟

علی زیدی کا کہنا تھا کہ میں نے کھلی درخواست کی تھی کہ عزیر بلوچ کو رینجرز کی تحویل میں دیاجائے کیونکہ خدشہ تھا طاقتور مافیا عزیر بلوچ کو سندھ حکومت کی تحویل میں مروا دے گا اور خود عزیربلوچ نے بھی جے آئی ٹی میں اعترافی بیان کے بعد مافیا سے خطرہ ظاہر کیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ بلدیہ فیکٹری سانحے میں 250 معصوموں کی جان گئی، جےآئی ٹی میں کہا گیا کہ بلدیہ فیکٹری سانحے پر سندھ پولیس سے کوتاہی ہوئی جب کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں تجویز کیاگیا بلدیہ فیکٹری سانحےکی ایف آئی آردوبارہ درج کی جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سندھ حکومت 4 سال سے کیوں سو رہی تھی؟ میں نے اپنے شہر کے لیے کردار ادا کیا، میں نے ان تمام لوگوں کے لیے آواز بلند کی جو گینگ وار اور دہشت گردوں سے متاثر ہوئے، میں نے اس مقصد کے لیے اپنے خاندان کی سیکیورٹی اور اپنا سب کچھ داؤپر لگایا۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ میرے اور میرے خاندان کے لیے قانون نافذکرنے والے اداروں نے تھریٹ الرٹ جاری کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ میں اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے کر جاؤں گا، سپریم کورٹ میں جانے والا معاملہ کسی کے اختیار میں نہیں ہوتا لہٰذا امید ہے معزز جج صاحبان تمام شواہد دیکھ کر انصاف دیں گے۔

خیال رہے کہ پیپلزپارٹی کے رہنما اور سندھ کے وزیرتعلیم سعید غنی نے کہا ہے کہ صدر مملکت، گورنر سندھ اور علی زیدی کو امن کمیٹی کو تحریک انصاف میں شامل کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ گذشتہ دنوں سندھ حکومت نے عزیر بلوچ سمیت سابق چیئرمین فشری نثار مورائی اور بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹس جاری کی ہیں تاہم علی زیدی کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت نے اصل جے آئی ٹی رپورٹس چھپائی ہیں ، جس کے بعد سے دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے۔

مزید خبریں :