15 جولائی ، 2020
کراچی کو بجلی فراہم کرنے کی ذمہ دار نجی کمپنی کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) مونس علوی نے شہر میں بدترین لوڈشیڈنگ کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں شک نہیں لوڈشیڈنگ زیادہ ہور ہی ہے۔
کراچی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے مونس علوی نے کہا کہ لوڈشیڈنگ وہاں بھی ہو رہی ہےجہاں نہیں ہوتی تھی، اس وقت صوبائی اور وفاقی حکومت نے 237 ارب روپے کے الیکٹرک کے واجبات ادا کر نے ہیں۔
مونس علوی نے کے الیکٹرک کی جانب سے شہریوں کو ملنے والی اذیتوں میں سے سرفہرست لوڈشیڈنگ کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت زیادہ مسئلہ لوڈشیڈنگ کاہے، لوڈشیڈنگ وہاں بھی ہورہی ہےجہاں نہیں ہوتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ مستثنیٰ علاقوں میں بھی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، 10سے 12دن میں درجہ حرارت کم ہوگا تو بجلی کی طلب میں بھی کمی ہوگی، آئندہ سال لوڈشیڈنگ سے متعلق صورتحال بہتر ہوجائےگی۔
کے الیکٹرک کے سربراہ نے کہا کہ ہم 3200میگاواٹ بجلی فراہم کرسکتےہیں جبکہ شہر کی طلب 3500 میگا واٹ ہے۔
زائد بلنگ اور مہنگی بجلی کا دفاع کرتے ہوئے سی ای او نے کہا کہ کراچی میں بجلی کے ریٹ کو خود کم یا بڑھا نہیں سکتے، کراچی کا ٹیرف ملک سے ڈھائی روپےکم ہے، جہاں پہلےلوڈ شیڈنگ ہوتی تھی وہاں مسلسل بجلی کی فراہمی پر بل زیادہ آیا، مارچ میں میٹرریڈنگ کے بغیر بل آئے تواس کوفوری واپس لے لیا جب کہ اپریل میں میٹرریڈنگ کےبعدبل بھیجےگئےہیں۔
مونس علوی نے کہا کہ وفاقی محتسب کے 99 فیصد فیصلے کے الیکٹرک کےحق میں ہوتے ہیں، صارفین وفاقی محتسب میں بھی شکایات درج کراسکتےہیں۔
انہوں نے شہریوں کو امید دلائی کہ حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں جلد صورتحال پرقابو پالیں گے، وفاق کےساتھ اچھےروابط ہیں،مسائل کاحل نکال رہےہیں۔
سی ای او کےالیکٹرک نے مزید کہا کہ وہ لوڈ شیڈنگ پر معذرت خواہ ہیں تاہم اس وقت صوبائی اور وفاقی حکومت نے 237 ارب روپے کے واجبات ادا کر نے ہیں اور کے الیکٹرک نے اداروں کو 160 ارب روپے دینے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کے الیکٹرک نے 2019 میں 280 ارب روپے کی بجلی فروخت کی ہے، واٹر بورڈ نے کے الیکٹرک کو 30ارب سے زائد واجبات ادا کرنے ہیں، سندھ حکومت پر 50ارب سے زائد واجبات ہیں، اس میں سندھ حکومت کے تمام ادارے شامل ہیں، کے الیکٹرک نے بینکوں سے 85 ارب روپے کا قرضہ لیا ہوا ہے، اس پر ہمیں سود ادا کرنا پڑتا ہے۔
2016میں 700میگا واٹ کا پاور پلانٹ لگانے کی اجازت نہیں ملی، مونس علوی
مونس علوی نے کہا کہ 2016میں 700میگا واٹ کا پاور پلانٹ لگانے کی اجازت نہیں ملی، اُس وقت پاور پلانٹ کی اجازت نہ ملنے سے اِس وقت بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2016 میں پاور پلانٹ میں تعطل کی کچھ تکنیکی وجوہات تھیں، اس وقت کہا گیا کہ سسٹم مقامی کوئلے پر کرلیں لیکن سسٹم دوسرے کوئلے کا تھا، کہا گیا کہ مقامی کوئلہ سے بجلی بنانے پر فوکس کیا جائے، نیا پاور پلانٹ لگانے میں ڈھائی سے تین سال لگتے ہیں، اگر اجازت 2016 میں مل جاتی تو ابھی ان سے بجلی مل رہی ہوتی۔
سربراہ کے الیکٹرک نے بتایا کہ گزشتہ 15 سے 18 روز میں کوئی کیبل نہیں کاٹی، تانبے کی تبدیلی پورے پاکستان میں ہورہی ہے، جو تانبا اتار کر فروخت ہوتا ہے وہ اکاونٹس میں دکھایا گیا ہے، تانبہ کی جگہ المونیم پورے ملک میں لگایا جارہاہے، ہمارا سسٹم پچھلے 3سال سے بہت بہتر ہوگیا ہے۔