پاکستان
Time 20 جولائی ، 2020

سری لنکا سے پاکستان پہنچنے والے ہاتھی 'کاوان' کی کہانی

کاوان کی منتقلی کے لیے کمبوڈیا سے ٹیم جائزہ لینے کے لیے جلد اسلام آباد پہنچے گی— فوٹو:فائل 

1985 میں ایک سال کی عمر میں سری لنکا سے پاکستان پہنچنے والا ہاتھی کاوان  36 سال کا ہوگیا۔

ایک سال کی ننھی عمر میں ہی سری لنکن حکومت نے کاوان کو اپنے خاندان سے جدا کرکے 1985 میں اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل ضیاءالحق کو بطور تحفہ پیش کیا تھا۔

کاوان سری لنکا سے پاکستان منتقل ہوگیا اور اسلام آباد کا مرغزار چڑیاگھر اس کی رہائش گاہ ٹھہری جب کہ کاوان کو اپنے درمیان پا کر وفاقی دارالحکومت کے شہریوں اوریہاں کارخ کرنےوالے سیاحو ں کی خوشی کاٹھکانہ نہ تھا۔

سال دہائیوں میں بدلتے چلے گئے اورکاوان کی حالت خراب سے خراب ترہوتی چلی گئی۔

ماہرین حیوانات کے مطابق جنگلی جانوروں، خاص طورپر ہاتھیوں کے لیے تنہائی مرض کی صورت اختیارکرجاتی ہے۔ کاوان کی تنہائی دور کرنےکے لیے 5 سال بعد بنگلا دیش سے اس کی سہیلی نامی مادہ ساتھی کومنگوایاگیا لیکن سہولیات کے فقدان، نامناسب دیکھ بھال اور موسمی شدت کے باعث سہیلی کی موت واقع ہوگئی۔

سہیلی نے ساتھ چھوڑا تو کاون کے مسائل بڑھتے بڑھ گئے اور اس کے غصے پر قابو پانا مشکل ہوتاچلاگیا اور چڑیاگھر کی انتظامیہ نے اسے زنجیروں میں جکڑڈالا۔

وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) کے حکام کہتے ہیں کہ ایساً مجبورا کرنا پڑا کیونکہ قید سے بیزاری اور موسمی شدت کے شکارکاوان نے غصے کے اظہار کے لیے شور شرابا کرنا شروع کردیاتھا۔

ہاتھی چڑیا گھر کے جنگلوں کو ٹکرمارتا اوربعض اوقات شہریوں پر اپنی خوراک کے لیے رکھے گنوں سے حملہ آور بھی ہوجاتا تھا۔

شہریوں نے کاوان کو زنجیروں سے رہائی دلانے کے لیے سوشل میڈیاپر مہم شروع کی تو نجی تنظیموں کی کاوش سے معاملہ ایوان بالا پہنچ گیا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے کاوان کو زنجیروں سے آزاد کرنے اور ہاتھی گھرکے اندرونی حصوں میں  تالاب بنوانے کے احکامات جاری کیے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے رواں سال مئی میں کاوان کوکمبوڈیا کی پناہ گاہ منتقل کرنے کی احکامات جاری کیے۔

ماہرین حیوانات کاکہناہےکہ کاوان کی کمبوڈیا منتقلی ایک مشکل اورپیچیدہ عمل ہے کیونکہ ایساکرنے کے لیے اسے بے ہوش کرنا پڑے گا اور ہاتھیوں کوبےہوشی کی دوائی 8 سال کی عمر تک دینا ممکن ہوتا ہے  اس کے بعد محدودمقدارمیں دوائی اثر نہیں کرتی جبکہ دوائی کی زیادہ مقدارسے موت کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔

ایسے میں کاوان کوپاکستان میں ہی رہائش پزیر ہونا پڑسکتا ہے لیکن اس کے مسائل آخر کیسے حل ہوں  کیونکہ ہاتھیوں کی صحت اور دیگرجانوروں کی نفسیاتی مشکلات کے حل کے لیے پاکستان میں کوئی طبی ماہر موجود ہی نہیں۔

چڑیا گھر انتظامیہ کے مطابق کاوان کی منتقلی کے لیے کمبوڈیا سے ٹیم جائزہ لینے کے لیے جلد اسلام آبادپہنچے گی، اس کے بعد ہی اس کی سینچوری منتقلی کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرناممکن ہوگا۔

ان کاکہناہےکہ کاوان مکمل طور پر صحت مند ہے، اس کی خوراک کا مکمل بندوبست بھی موجود ہے۔

مزید خبریں :