بلاگ
Time 29 جولائی ، 2020

عمران کے دو سال

فوٹو فائل—

آغاز اچھا تھا، پراعتماد انداز میں لوگوں کی امیدوں کو اور بڑھا دیا ،اعلان کیا کہ اب اچھا وقت شروع ہونے کو ہے، کہا کہ سب تیاری مکمل ہے۔ حلف برداری میں اپنے پڑوسی کو ایک مثبت پیغام دیا کہ وہ بھارت سے اچھے تعلقات بنانا چاہتے ہیں تاکہ دونوں ملکوں کے عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی آ سکے۔ کرکٹ کی دنیا کے نامور کھلاڑیوں کو دعوت دی۔

اپنے پہلے خطاب میں میڈیا کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا اب ان تمام باتوں کو دو سال ہو گئے ہیں، ابھی تین سال باقی ہیں۔ میں صرف ان کے ایک وزیر جناب فواد چوہدری کی بات کو یہاں دہرا دیتا ہوں ۔’’ کیا اس کارکردگی کو لے کر ہم آئندہ الیکشن میں جا سکتے ہیں‘‘۔

عمران خان کا وزیر اعظم کا حلف اٹھانا پاکستان کی70سالہ تاریخ میں دوسرا پرامن انتقال اقتدار تھا 2008کے بعد سے۔ اگر انہوں نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی تو وہ پہلے وزیر اعظم ہوں گے اور انکی حکومت تیسری ہو گی جو اپنے پانچ سال پورے کرے گی ۔

ان دو سالوں میں پاکستان کتنا آگے گیا ہے،یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ 1947سے اگر جمہوریت کا یہ سفر بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہتا تو شاید آج ہماری سیاسی تاریخ مختلف ہوتی۔آغاز اچھا تھا خارجہ امور میں کچھ کامیابیاں بھی ملیں۔ افغانستان کے بدلتے حالات کا فائدہ بھی ہوا، کشمیر کا مقدمہ بھی لڑا مگر ہم اپنے دوستوں میں اضافہ نہ کر پائے۔

کارکردگی:احتساب ،سول سروس اور پولیس ریفارمز، حکومت میں شفافیت ،ان کے منشور کا حصہ تھے۔ اچھا کیا دہری شہریت رکھنے والے مشیروں اور معاون خصوصی کے اثاثے سامنے لائے ۔خان صاحب کی شہرت آج بھی ایک ایماندار کپتان کی ہے مگر شاید پہلی بڑی غلطی ٹیم کے انتخاب میں ہوئی ،وہ امور مملکت چلانے میں کوئی تجربہ نہیں رکھتے تھے مگر انہوں نے الیکشن مہم کے دوران ہی اسد عمر کو اپنا وزیر خزانہ کہنا شروع کر دیا۔

مگر حکومت میں آنے کے چند ماہ بعد ہی انہیں تبدیل کرنا پڑا اور IMFجس کے وہ شدید مخالف رہے ہیں کی پسندیدہ ٹیم کو لانا پڑا تاکہ معیشت کو کچھ سہارا ملے۔

مجھے بڑی امید تھی کہ وہ اگر کسی ادارے کو بہتر بنا سکتے ہیں تو وہ ’’نظام احتساب‘‘ ہے، بدقسمتی سے انہوں نے اپنے وژن کو محدود رکھا اپنے مخالفوں تک، اور ماضی کی طرح احتساب کے نام پر انتقامی سیاست شروع ہو گئی۔نیب نے ان کے لئے وہی کام کیا جو اس نے ماضی میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے لئے کیا، نواز شریف کے لئے کیا اور آصف علی زرداری صاحب کیلئے کیا۔ اب بھی خان صاحب کے پاس وقت ہے کہ احتساب کا ایک مضبوط ادارہ بنا ڈالیں۔

جودوائوں کے اسکینڈل سے لیکر چینی کمیشن کی رپورٹ تک اور آٹے سے لیکر پیٹرول تک سارے کرداروں کے خلاف کارروائی کرے۔ماضی کی حکومتوں کی کرپشن تو بے نقاب ہے مگر اس کے کئی کرداروں نے تحریک عمرانیہ میں پناہ لی ہوئی ہے۔ نئے احتسابی ادارے کے افسران اس شعبہ میں خاص طور پر وائٹ کالر کرائم کے ماہر ہوں تاکہ عدالتوں سے ملزم نہیں وہ سرخ رو ہوں۔

سول سروس ریفارمز :خان صاحب ایوب خان کے دور کی مثالیں دیتے ہوئے اکثر اس وقت کے سول سرونٹ کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد بیشتر بیورو کریٹ انڈین سول سروس سے آئے تھے۔1949میں پاکستان سول سروس کے امتحان میں 24افسران آئے جن میں 12کا تعلق مشرقی پاکستان اور 12کا مغربی پاکستان سے تھا، 1958کے مارشل لا کے بعد سے ہی سول سروس سیاست کی نذرہونا شروع ہو گئی، معیار گرنے لگا، کرپشن کی خبریں آنے لگیں۔ ایوب سے لیکر بھٹو کے دور تک کوئی دو ہزار افسران نکالے گئے مگر کسی ایک حوالے سے یہ بات سامنے نہیں آئی کہ وہ کیوں نکالے گئے تھے،ماسوائے الزامات کے۔

ڈاکٹر عشرت حسین کے سپرد یہ کام دیا گیاہے ڈاکٹر صاحب قابل آدمی ہیں اور صاف ستھرے افسر رہے ہیں۔ مگر کرپشن اور تعصب کے دلدل میں ڈوبی ہوئی اس کشتی کو نکالنا مشکل لگتا ہے۔ لہٰذاان دو سالوں میں کوئی بھی سول سروس ریفارمز کاغذی کام سے آگے نہ جا سکیں ۔پنجاب میں جس طرح افسران بدلتے ہیں اتنی جلدی تو آدمی کپڑے نہیں بدلتا۔

جب سوچ یہ بن جائے، کہ یہ میرا آدمی ہے، ہماری پارٹی کا ہمدرد ہے، نا کہ یہ اچھا افسر ہے میرا بھی حکم ٹال سکتا ہے، تو بہتری نہیں آ ٓ سکتی ۔لہٰذا خان صاحب کو آئندہ تین سالوں میں اور کچھ نہیں تو ایماندار اور قابل افسران پر اعتماد کرنا پڑے گا ،کچھ سخت قانون سازی کرنا پڑے گی۔پولیس ریفارمز:حقیقت یہ ہے کہ پولیس کو دیکھ کر کبھی آپ اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے۔

تھانے جاتے ہوئے ڈرتے ہیں، شکایت لے کر جانے والا ملزم بن کر باہر آتا ہے۔اس سب کو ختم کرنے کیلئے خان صاحب نے عہد کیا تھا، ناصر درانی جس کا وہ 2014میں روز ورد کرتے تھکتے نہیں تھے۔پنجاب میں مشیر بنا کر لائے تو وہ کچھ عرصے رہ کر استعفیٰ دے کر چلا گیا ۔کبھی پلٹ کر پوچھا تک نہیں۔ پاکستان میں آج بھی پولیس آرڈر 2002سب سے بہتر اور پولیس کو غیر سیاسی رکھنے کے حوالے مؤثر قانون ہے،

ان دو سالوں میں خان صاحب اس کو مرکز، پنجاب، اور KPمیں تو مکمل طور پر نافذ کر سکتے تھے، شاید اتحادیوں سے خوفزدہ ہو گئے۔ آزادی اظہار :اگر یہ آزاد میڈیا نہ ہوتا تو تحریک انصاف کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتی تھی، یہ کسی اور کے نہیں کپتان کے اپنے الفاظ ہیں۔ اب خان صاحب خود جائزہ لے لیں کہ آپ نے میڈیا کو کتنی آزادی دی اور کتنا پابند کیا۔ سرکاری میڈیا پر کنٹرول کو مضبوط کرنے سے لے کر غیر جانبدار میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کے سوا کیا ہوا ہے۔

آخر میں اور کچھ نہیں تو میں سمجھتا تھا کہ خان صاحب کرکٹ میں تبدیلی لائیں گے، وہ خود کہتے تھے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا پیٹرن انچیف صدر یا وزیر اعظم کو نہیں ہونا چاہیےاب آپ نے کس میرٹ پر ایک نامعلوم وسیم خان کو وہ ذمہ داری دے ڈالی جس سے وہ واقف ہی نہیں۔

دعا ہے کہ آپ اپنی معیاد پوری کریں اور دو سالوں سے سبق سیکھیں ۔کرنے کو بہت کچھ ہے اگر کرنا چاہیں۔ دیکھیں میں نے کوئی الزام نہیں لگایا صرف آپ کو باتیں یاد دلائی ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔