بلاگ
Time 31 جولائی ، 2020

اب کون مستعفی ہوگا؟

فوٹو فائل—

( میں دہری شہریت رکھنے والے وزیراعظم کے خصوصی معاونین اور مشیروں کے خلاف کچھ لکھنے سے پہلے اس بات کا اقرار کرنا چاہتا ہوں کہ میں دہری شہریت رکھتا ہوں۔پاکستان کے ساتھ برطانیہ کا بھی شہری ہوں۔ )

اگرچہ فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ڈاکٹر ظفر مرزا اور تانیہ ایدروس کے استعفوں کا دہری شہریت سے کوئی تعلق نہیں مگر تانیہ ایدروس نے یہی کہا ہے کہ وہ دہری شہریت کے سبب مستعفی ہوئی ہے۔ بہرحال دو استعفے سامنے آئے ہیں۔ دہری شہریت کے سبب یا کسی اور وجہ سے مگر عوامی نمائندوں کی پہلی فتح ہوئی ہے۔

حکومت میں ایک کشمکش عرصہ درازسے جاری ہے کہ حکومت کرنا ایم این ایز کاکام ہے ،وہ اس مقصد کےلئے عوام سے ووٹ لے کر آئے ہیں۔ عمران خان نے یہ جو ٹیکنو کریٹس کو معاون خصوصی بنا کر وفاقی وزیر کے اختیارات دے دئیے ہیں اور زیادہ اہم محکمے انہی کے پاس ہیں۔ لوگ تو یہاں تک کہنے لگے ہیں کہ پاکستان پر عوامی نمائندوں کی نہیں چند ٹیکنوکریٹس کی حکومت ہے۔

وہ بھی ٹیکنوکریٹ کم اور سرمایہ دار زیادہ ہیں تقریباً تمام معاون خصوصی ارب پتی اور کروڑ پتی ہیں جنہوں نے غریبوں پر حکومت کرنی ہے۔ ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ پٹرول کی قیمت میں سات روپے اضافے کی تجویزپیش کردی گئی ہے۔یہ کارنامہ یقیناًکسی مشیر کے مشورے کا ہی ہو گا۔ بہرحال واقفانِ حال یہی الزام لگاتے ہیں کہ اُس 80کروڑ میں سے انہوں نے آج تک ایک روپیہ بھی پاکستان کوواپس نہیں کیا۔

کچھ اطلاعات کے مطابق عوام پر پٹرول کی قیمتوں کے بم گرا نے میں مشیران کا اہم کردار ہے۔ توقع تھی کہ غیر ملکی شہریت رکھنے کے سبب کئی اور مشیر بھی مستعفی ہونگے مگر ابھی اس طرف سے بالکل خاموشی ہے۔ عمران خان کےمشیروں میں سات افراد دہری شہریت رکھتے ہیں یا غیرملکی رہائشی ہیں۔ جہاں کسی اور ملک کا رہائشی ہونا یا گرین کارڈ رکھنا تو کوئی ایسی بات نہیں جس پر اعتراض کیا جا سکے۔

ہاں دہری شہریت مسئلہ ہے اس پر سپریم کورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں اور ملکی قوانین کا احترام جزوِ ایمان ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ظفرمرزا کا نام دہری شہریت والوں لوگوں میں نہیں تھا مگر وہ بھی دہری شہریت کی وجہ سےمستعفی ہوئے ہیں۔ ممکن ہے انہوں نے اپنی دہری شہریت اس وقت ڈکلیئر نہ کی ہو۔ یہ بات طے ہے کہ ان دو کے مستعفی ہونے کی وجہ سے دہری شہریت رکھنے والے باقی لوگوں پر دبائو بڑھ گیا ہے۔

ویسے کتنی عجیب بات ہے کہ یورپ کے ممالک جہاں دہری شہریت کی اجازت ہے وہاں دہری شہریت کے حامل لوگ وزیر بلکہ وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں۔

ایک اہم ترین سوال یہ ہے کہ وہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں آفیسرز جن کے پاس دہری شہریت ہے انہیں کس خانے میں فٹ کیا جائے۔ ذاتی طور میں دہری شہریت کا مخالف نہیں ہوں۔

دوہری شہریت کے لئے جو اوتھ اٹھایا جاتا ہے اُس میں یہ کہیں نہیں ہوتا کہ آپ جس ملک سے تعلق رکھتے ہیں اِس ملک کو اُس پر بھی ترجیح دیں گے۔

وہ برٹش پاکستانی نوجوان جو وہاں پیدا ہوئے وہ کس قدر پاکستانی ہوتے ہیں اس کا صحیح اندازہ برمنگھم یا لیڈزمیں برطانیہ کے ساتھ ہونےوالے کرکٹ میچ میں ہوتا ہے کہ تمام برٹش پاکستانیوں نے پاکستانی کرکٹ ٹیم جیسا لباس پہن رکھا ہوتا ہے اور برطانوی ٹیم کو یوں لگ رہا ہوتا ہے کہ جیسے وہ برطانیہ میں نہیں پاکستان کے کسی کرکٹ گرائونڈ میں میچ کھیل رہی ہے۔

تقریباً 80فیصددیکھنے والے پاکستان ٹیم کے حق میں نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔ اسی بات کو بنیاد بنا کر ایک بار برٹش نیشنل پارٹی کے ایک اہم عہدہ دار نے کہاتھا کہ ’’یہ کبھی برٹش نہیں ہو سکتے انہیں واپس اپنے ملک بھیج دیا جانا چاہئے‘‘۔ برطانیہ میں کسی وقت ایسی صورتحال بھی پیدا ہوسکتی ہے جیسی کہ اِس وقت زمبابوے میں ہے کہ وہاں کے رہنے والے سفیدفاموں کوجو تقریباً اٹھارہویں پشت سے وہاں رہ رہے ہیں یہ کہا گیا کہ تم اپنے وطن میں واپس جائو تو وہ کہہ اُٹھیں ’’ کونسا وطن‘‘۔

یہ تو یونہی ایک خیال تھا جو ذہن میں آگیا۔سچ یہی کہ ایک جسم کے دو وطن نہیں لگتے۔ برسوں پہلے میں نے کہا تھا

محبت کے سفر میں چھوڑ دے تقسیم خوابوں کی

کسی بھی اک بدن کے دو وطن اچھے نہیں ہوتے

دیکھتے ہیں اب کون مستعفی ہوتا ہے۔ برطانیہ میں ذرا ذرا سی بات پر وزیر استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ ایک خاتون وزیر کے شوہر نے اس کے سرکاری فون سے کسی کو ٹیلی فون کردیا جس کا کل بل نو پونڈ بنا ،صرف اسی سبب سےخاتون وزیر کو اپنی وزارت چھوڑنی پڑی۔

ایک وزیر داخلہ نے اپنی بیٹی کی نینی کے معمول کے ویزے میں صرف اتنی سفارش کردی کہ اسے ذرا جلدی لگادیں۔ اس جرم میں اسے مستعفی ہونا پڑ گیا۔ دہری شہریت رکھنے والے افراد تہذیب یافتہ دنیا کی یہ تمام روایات جانتے ہیں اور مہذب ہونے کے دعویٰ دار ہیں۔

اس لئے میں مسلسل یہی سوچ رہا ہوں کہ اب کون مستعفی ہوگا۔ معاملہ صرف دہری شہریت والوں تک محدود نہیں مگراب جو بھی ہونا ہے عید کے بعد ہونا ہے۔ عید کے موقع پر کسی قربانی کاکوئی امکان نہیں۔ صرف وفاق میں نہیں پنجاب حکومت کےکچھ وزیر گھروں کا رخ کریں گے۔

(آخر میں ’’میڈیا منڈی ‘‘کے لئے ایک اطلاع ہے کہ قربانی کے جانور تیار رہیں )


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔