12 اگست ، 2020
امریکا کے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن نے کاملا ہیرس کو اپنا نائب چن لیا۔
کاملا ہیرس نائب صدارتی امیدواروں میں سرفہرست تھیں اور اب وہ ہی 3 نومبر کو صدارتی الیکشن میں بائیڈن کی پارٹنر ہوں گی، ان کے نام کی توثیق ڈیموکریٹ کنونشن میں کی جائےگی جو 17 سے 20 اگست تک جاری رہے گا۔
جو بائیڈن نے کہا کہ میرے لیے اعزاز ہے کہ میں نے کاملاہیرس کو چنا ہے، کاملا ہیرس بے خطر فائٹر اور عمدہ پبلک سرونٹ ہیں۔
55 سینیٹر کاملا ہیرس کا تعلق کیلی فورنیا کے شہر اوک لینڈ سے ہے، وہ ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار بننے کی خواہش مند تھیں مگر دسمبر میں ہی دوڑ سے باہر ہو گئی تھیں۔
ایک مباحثے میں کاملا ہیرس نے نسل پرستانہ بنیادوں پر تفریق کرنے والے سینیٹرز کی تعریف پر جو بائیڈن کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
جو بائیڈن کا مقابلہ دوبارہ صدارت کے ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے ہو گا جب کہ ری پبلکن پارٹی کی جانب سے نائب صدارت کے دوبارہ امیدوار مائیک پنس اور کاملا ہیرس آمنے سامنے ہوں گے۔
جو بائیڈن کا کہنا ہےکہ انہوں نے اپنے بیٹے اور کاملا ہیرس کو بڑے بینکوں سے لڑتے، لوگوں کی زندگیاں بہتر بناتے، خواتین اور بچوں کو استحصال سے بچاتے دیکھا ہے، ان پر کل بھی فخر تھا اور آج بھی فخر ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ کاملا ہیرس کی والدہ شیاملا کا تعلق بھارت سے ہے، وہ 1960 کے عشرے میں امریکا منتقل ہوئی تھیں اور کینسر کی تحقیق سے وابستہ سائنس دان تھیں۔
کاملا کے والد ڈونلڈ ہیرس کا تعلق جمیکا سے ہے، وہ بھی 1960 ہی کےعشرے میں امریکا منتقل ہوئے اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں اکنامکس کے پروفیسر ہیں۔
دوسری جانب کاملا ہیرس کے انتخاب پر صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران تمسخر اڑایا گیا، جو بائیڈن پر طنز کرتے ہوئے کہا گیا کہ کھوکھلا خول بائیں بازو کے انتہاپسندوں کے ایجنڈے سے بھرا جا رہا ہے۔
ٹرمپ کی مہم کے دوران یہ بھی یاد دلایا گیا ہے کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ کاملا نے بائیڈن کو نسل پرست کہا تھا، کاملا نے بائیڈن سے جو معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا، آج تک پورا نہیں ہوا۔
صدر ٹرمپ نے بھی چٹکلا چھوڑا ہے کہ بہت سے مرد اپنی توہین محسوس کریں گے کہ بائیڈن خاتون کو نائب امیدوار بنا رہے ہیں۔