Time 24 اگست ، 2020
بلاگ

اصلی خادمِ اعلی بنناچاہتا ہوں

فوٹو: فائل 

وقفے وقفے سے برستی بارش ،بھیگی بھیگی سہ پہر، اسلام آباد،پنجاب ہاؤس، وزیراعلیٰ عثمان بزدار میرے سامنے بیٹھے، رسمی علیک سلیک ہوئی ،میرا پہلا سوال، یہ شراب لائسنس کا کیا معاملہ ،بولے ، سب جھوٹ ، مجھے علم نہ میرا کام ،جو کیا ڈی جی ایکسائز نے کیا، میں نے بات کاٹی، مگر ڈی جی ایکسائز تو وعدہ معاف گواہ بن چکا۔

اس کا کہنا میں نے تو جوکچھ کیا وزیراعلیٰ کے حکم پر کیا، کہنے لگے ، میرا کوئی تحریری حکم نامہ، کوئی ثبوت کہ یہ سب میں نے کروایا، میں نے کہا، سنا جارہا، شراب لائسنس جاری کرنے کے عوض آپ کے عزیز نے 5کروڑ رشوت لی ،مسکرا کرکہا، رشوت کا کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائیں ،میں نے پوچھا ،کیا لاہور ،تونسہ ٹھیکے گھپلوں والی بات بھی جھوٹی، بولے، بالکل جھوٹی۔

کوئی ایک گھپلا ثابت کردیں، میں نے کہا، ٹھیکیدار تنویر کون ہے جس کو ہر ٹھیکہ مل رہا ،کہنے لگے، کون تنویر، میں نہیں جانتا، میں نے کہا،آپ ٹھیکیدار تنویر کو نہیں جانتے ،بولے ،نہیں جانتا،کہا، تونسہ شریف میں دو ٹھیکیداروں کی کہانیاں زبان زدعام ،یہ بھی سناجارہا،آپ نے اپنے بھائیوں ،عزیزوں ،فرنٹ مینوں کے نام پر کافی زمینیں خریدلیں ، بولے ، میں نے بھی یہی سنا ہے، کیس نیب میں ،کچھ ہواتو سامنے آجائے گا، میں نے کہا۔

اتنی کہانیاں ،اتنے الزامات ،بات اثاثوں تک پہنچ چکی کیوں، کہنے لگے، ساؤتھ پنجاب کا ایک غریب شخص وزیراعلیٰ بن گیا، ایلیٹ کلاس ،وڈیروں کو یہ ہضم نہیں ہورہا، بس اتنی سی بات ہے۔

میرا اگلا سوال تھا ،پنجاب میں گورننس ،پرفارمنس کا اتنا برا حال کیوں، کہا،دوسالوں میں بہت کچھ کیاہے،عنقریب سب کارکردگی سامنے لائیں گے، میں نے کہا، مصنوعی مہنگائی ،مسلسل بڑھتے جرائم ،ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ،ہر محکمے میں کرپشن کہانیاں،آٹا،گندم ،چینی بحران ،یہ ہے آپ کی کارکردگی، بولے، گیارہ ساڑھے گیارہ کروڑ کا صوبہ، مسائل ،مصائب کا انبار، بہت کچھ کیا، بہت کچھ کرنا باقی، میں نے بات کاٹ کر کہا، کیا کیا ہے چلو یہی بتادیں،بولے،ہفتہ دس دن رک جائیں۔

ہم سب بتانے والے، میں نے کہا، یہ کیسی کارکردگی جونظر نہیں آرہی، بولے،عمران خان اکثر کہتے ہیں کہ عثمان تم پکے مسلمان ہو،نیکی کردریا میں ڈال ، یعنی کسی کو کچھ بتاتے ہی نہیں، میں نے کہا، عمران خان آپ پر اتنا اعتمادکیوں کرتے ہیں، بولے، یہ ان کی مہربانی ہے ،میں نے کہا، اس اعتما دکی وجہ کوئی روحانی تعلق تو نہیں ،بولے، روحانیت کی ایک پوری دنیا، روحانی لوگوں سے ملتاہوں، درباروں، درگاہوں پرجاتاہوں، دعائیں لیتا ہوں۔

میں نے پوچھا، کبھی سوچاتھاوزیراعلیٰ بن جائیں گے، کہا،بالکل نہیں، پوچھا، وزیراعلیٰ بن کر پہلے دن دفتر گئے ،کیا احساسات تھے،بولے،اللہ کا شکر اداکررہا تھااور ہاں میں 5سال ہر ماہ شہباز شریف کو فیکس کرتا ،ملنے کی درخواستیں کرتا،مگروہ 5سال مجھے نہیں ملے، سوچ رہا تھا، اب اللہ نے مجھے وزیراعلیٰ بنادیا۔

کیا یہ سچ ہے کہ آپ نے کراچی نہیں دیکھا، قہقہہ مارکر بولے، یہ ہوائی کہانی کہ میں نے کراچی نہیں دیکھا یا مجھے لاہور کا کچھ پتا نہیں ،میں کراچی جاچکا، مجھے لاہور کی ایک ایک سڑک کا علم ، بلکہ میں 2001میں بحیثیت اسٹیٹ گیسٹ امریکہ جاچکا،پوچھا، یہ سچ کہ آپ کو موبائل فون کے بارے میں کچھ زیادہ پتا نہیں، کہا،ہاں یہ سچ ،کال کرنا ،کال سننا یا کبھی کبھار وٹس ایپ میسج بس، پوچھا،یہ سچ کہ آجکل سوئمنگ سیکھی جارہی ، کہا،ہاں ابھی سیکھ ہی رہا ہوں، ٹیوب کے ساتھ سوئمنگ کرکے مزاآتا ہے،انجوائے کرتاہوں، کیا یہ سچ، دوسری شادی کرلی، کہا، نہیں بالکل نہیں ،ایک بیوی اور تین بیٹیاں ہیں بس۔

میں نے پوچھا، اتنے اچھے نصیب کہاںسے لائے، ہنس کرکہا،سب اللہ کا فضل ، ساری عمر غریبوں میں رہا، غریبوں کی خدمت کی، غریبوں سے دعائیں لیں، والد تو اب حیات نہیں رہے،والدہ ہروقت مصلّے پر بیٹھی دعائیں کررہی ہوتی ہیں،پنجاب کا واحد وزیراعلیٰ ہوں جو 8جیلوں کا وزٹ کرچکا، سینکڑوں قیدیوں کے مسائل حل کرچکا، محکمہ جیل خانہ جات میں بہت ساری اصلاحات لارہے ہیں، مجھے غریبوں کیلئے کام کرکے خوشی ہوتی ہے اور آپ کو یہ بھی بتاتاچلوں ،عمران خان کی ایک کمزوری وہ غریب لوگ، ان کامشن غریبوں کے حالات بدلنا، مسائل حل کرنا۔

میں نے کہا، مگر اس وقت آپ کی حکومت سے سب سے زیادہ تنگ غریب ہی، بولے، اچھا وقت آنے والاہے، پوچھا ،کامران خان کو انٹرویو کا کہہ کر عین وقت پر انٹرویو نہ دینا ،کیوں، کہنے لگے، بس مس مینجمنٹ ہوگئی، پوچھا، سہیل وڑائچ سے بھی وعدہ کرکے انٹرویو نہ دیا،بولے ،وہ ایک دن جیو کیساتھ کرنا چاہتے تھے، وہ بہت لمبا کام ہے،آگے چل کر کریں گے، ویسے اب میں اوپن ہونے والاہوں، اب میڈیا کو فیس کروں گا، کہا، مطلب آپ سیکھ چکے، بولے ،بالکل اب میں تیارہوں،کہا، والد کے نام پر دل کا اسپتال وہ بھی سرکاری پیسوں سے کیوں ،بولے ، نام بدل دیا ہے، اب اسپتال کا نام ڈیرہ غازی خان انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہے، سوال کیا، 5سال نکال جائیں گے۔

کہنے لگے، کبھی اس حوالے سے نہیں سوچا، جب تک نصیب میں ہے رہوں گا، ویسے بھی یہاں اگلے لمحے کا کیا پتا،شریفوں کو دیکھ لیں، جو اتنے اہم کہ 14ارب سیکورٹی پرلگے، 1960پولیس اہلکار حفاظت پر مامور، مطلب دو ضلعوں کی پولیس جتنی نفری، کتنے کیمپ آفسز،کتنی لمبی منصوبہ بندی، اب یہ سب کہاں ہیں۔

پوچھا، دوسالوں میں کوئی یادگارلمحہ، بولے، روضہ رسول ؐ پر جانے کا شرف، میں عمران خان کے ساتھ عمرے پرگیا ،ہم نے مدینہ میں لینڈ کیا، بتایاگیا،آپ روضہ مبارک کے اندر جائینگے ،ہم اندرگئے ،باہر سے تالا لگا دیاگیا، ہم جب باہر آنے لگے تو تالا نہ کھل سکا، کافی دیر تالا کھولنے کی کوشش ہوتی رہی ، اتنی دیر میں ہم نے پھرسے دعائیں مانگنا،درود پڑھناشروع کردیا، اِدھر اذان ہوئی ،اُدھر تالا کھل گیا، یوں ہمیں مقررہ وقت سے زیادہ وقت اندر مل گیا،یہ لمحے میری زندگی کے انمول لمحے، یادگارلمحے۔

میں نے کہا، جب آپ وزارت اعلیٰ سے ہٹیں گے ،کیا خواہش کہ لوگ آپ کو کیسے یاد رکھیں،بولے، ہم پنجاب میں بہت کچھ کرنے جار ہے، صرف 70ارب تو صحت کے شعبے میں لگارہے ہیں، صوبے بھر کے شہروں میں اسپتال بنیں گے، نیا صوبہ بنے گا، نئی سڑکیں ،پولیس ،پٹوار کلچر بدلے گا، میں پنجاب کا اصلی خادمِ اعلیٰ بننا چاہتاہوں،میری خواہش ہے کہ لوگ مجھے اصلی خادمِ اعلیٰ کے طور پر یاد رکھیں ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔