Time 07 اگست ، 2020
بلاگ

عثمان بزدار اور سوشل میڈیا

ایک سابق ٹی وی اینکرنے ارشاد فرمایا ہے کہ ٹی وی چینل بند ہونے والے ہیں۔ اب اصل میڈیا،سوشل میڈیا ہو گااور مجھے میانوالی کامرحوم شاعر قادر یار دھوڑ یا د آگیا۔وہ سرائیکی زبان کاشاعر تھا، پڑھا لکھابالکل نہیں تھا۔

وہ جوگیت اور دوہڑے کہتا تھا، اسے کاغذ پر کوئی اور منتقل کرتا تھا، اس کا کلام میانوالی فوک گلوگار ایوب نیازی گایا کرتا تھا،  اس کی بازار میں دکان تھی جہاں مسجدوں کے تیارشدہ مینار اور سیمنٹ کی جالیاں بیچی جاتی تھیں۔ 

یہ کوئی چالیس سال پرانی بات ہے میں بازار سے گزر رہا تھا کہ مجھےقادر یار نے پیچھے سے آواز دی۔ میں اس کی دکان پر گیا تو وہاں چھ سات لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ چائے چل رہی تھی ایک کرسی پر ریڈیو پڑا تھا اور اس پر ڈیرہ اسماعیل خان ریڈیو اسٹیشن لگا ہوا تھا۔جس پر موسیقی کا پروگرام چل رہا تھا۔ ایوب نیازی گیت گا رہا تھا۔

جیسےہی گیت کے آخری بول آئے تو قادر یار نےسب کو کہا خاموش، اور ریڈیو کی آواز اونچی کر دی۔ گیت ختم ہوتے ہی انائونسر نے اگلے گیت کا اعلان کیا اور کہا ’’یہ گیت لکھا ہے سلیم احسن ‘‘نےتو اس نے ریڈیو کی آواز مدہم کردی اور پھر باتوں میں مصروف ہو گیا۔

یہی حرکت موصوف نے اگلے دو گیتوں پر بھی کی۔ اور چوتھے گیت پر جیسے ہی اعلان ہوا اس کا شاعر بھی سلیم احسن ہے تو اس نے ریڈیو بند کردیا اور کہا۔ ’’دوستو یہ طے ہے کہ یہ ریڈیو اسٹیشن نہیں چل سکتا۔ یہ بند ہو جائے گا ‘‘ میں نے حیرت سے کہا ’’چاچا وہ کیسے ‘‘ تو کہنے لگا۔جسےیہ معلوم نہیں کہ لوگ کس شاعر کے گیت کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ ریڈیو اسٹیشن کیسے چل سکتا ہے۔

جہاں نظام ِ عدل ہے وہاں سوشل میڈیا ایک معمول کی چیز ہے۔ جہاں ابھی انصاف کی تحریکیں چل رہی ہیں وہاں کی صورتحال پاکستان جیسی ہے۔شاید دنیا بھر میں سوشل میڈیا نے سب سے زیادہ پاکستان میں اہمیت حاصل کی ہے۔ایسا کیوں ہوا۔

کیوں آج حکومت پریشان ہے کہ اِس کا کیا کیا جائے۔ فیک نیوز کا بے ہنگم ہجوم ہر صبح سوشل میڈیا پر طلوع ہوتا ہے اور افواہوں کی فیکٹریاں چل پڑتی ہیں۔ دنیا بھر میں اِس کا حل صرف قانون کی عمل داری ہے۔ 

قانون تو پاکستان میں بھی موجود ہیں مگر افسوس کہ ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ یورپ اور امریکہ میں کسی نے دیکھا ہے کہ سوشل میڈیا پر کسی نے وزیر اعظم کو گالیاں دی ہوں۔ کسی وزیر یا افسر کے خلاف کچھ لکھ دیاہو، کسی شخص کے ساتھ کسی نے کوئی توہین آمیر مذاق کیا ہو۔ کسی کی عزت پامال کی ہو۔ کسی پر کوئی الزام لگا دیا ہو۔ یقیناً ایسا کچھ کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ اس کی وجہ قطعاً یہ نہیں کہ وہاں کے لوگ بڑے سلجھے ہوئے ہیں۔ 

اصل بات اتنی ہے کہ وہاں اگرکسی نے کسی کے خلاف کوئی ایسی بات کردی جس کا اس کے پاس ثبوت موجودنہیں تو عدالتیں اتنا جرمانہ کرتی ہیں کہ گھر بھی بک جاتے ہیں۔ سو وہاں کوئی کسی کے خلاف بات کرنے کے متعلق سوچتا ہی نہیں۔ پھر وہاں یہ ممکن نہیں کہ کسی شخص کی مرضی کے بغیر اس کی ویڈیو بنا کر فیس بک یا یو ٹیوب پر لگا دی جائے۔ وہاں اس جرم میں جرمانے کے ساتھ قید بھی ہو سکتی ہے۔ 

یہاں میں نے دیکھا ہے لوگ اکثرکسی نہ کسی کا فون ریکارڈ کرکے اس کی ذاتی گفتگو سوشل میڈیا پر وائرل کردیتے ہیں اور وہ بیچارہ منہ چھپاتا پھر رہا ہوتا ہے۔ یہ پاکستان میں بھی قانونی طور پرجرم ہے مگر قانون کو کون پوچھتا ہے۔ ان تمام اینکر زنے جنہیں ٹی وی چینلزنے نکال دیا ہے انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے چینل بنالئے ہیں جہاں اسکینڈل پرورش پاتے ہیں۔ جھوٹ کی فیکٹریاں لگا دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ گالیاں اور الزامات تو معمول کا حصہ ہیں۔ کوئی عام آدمی تو کجا یہاں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزداربھی اپنے اوپر جھوٹےالزام لگانے والے کا کچھ نہیں بگاڑ پا رہا۔ وکیل سے نوٹس تو دلادیا ہے مگر سلسلہ رکا نہیں۔

موجودہ حکومت نے اس خوفناک مسئلہ پرسنجیدگی سے غور کیا۔ فیس بک اور یو ٹیوب والوں سے بھی بات کی مگر قانون کے نفاذ کا فیصلہ نہیں کیا۔میں حیران ہوں کہ بات ان کی سمجھ میں کیوں نہیں آرہی۔ یہاں کسی کو کوئی سزا نہیں ملتی۔ کسی پر جرمانہ ہوتا تو لوگ سوچتے مگریہاں توالٹا گالیوں دینے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

 سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا کے ونگ بنا رکھےہیں جہاں گالیاں کی نشریات جاری رہتی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ فوری طورپرایک بل قومی اسمبلی میں لائے جس کے تحت میڈیا اور سوشل میڈیا پرگالی دینے ،جھوٹ بولنے یا لکھنے والے کے خلاف عدالت ایک ماہ کے اندر اندر فیصلہ سنانے کی پابند ہواور جرمانہ کم ازکم پچاس لاکھ ہو۔جوشخص جرمانہ ادا نہ کر سکے ،اُسے ایک سال قید با مشقت کاٹنا پڑے۔ پھر دیکھیں کہ کون سوشل میڈیا پر کیسے جھوٹا پروپیگنڈا کرتاہے؟ جہاں تک جعلی آئی ڈیز کی بات ہے تو سائبر کرائم والوں کےلئے ان تک پہنچنا قطعاً مشکل نہیں۔

جرمنی میں سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی اور غیر قانونی مواد ڈالنے والوں پرپانچ کروڑ یورو تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔ ترکی کی پارلیمان نے بھی چند دن پہلے ایسا ہی ایک قانون منظور کیا ہے۔ تقریباً تمام ممالک میں ایسے قوانین موجود ہیں۔ سب سے سخت قوانین روس، چین اور سنگاپور کے ہیں۔ 

سعودی عرب میں نشے کے حق میں سوشل میڈیا پر بیان دینے والے کو گرفتار کر لیا گیا۔ برطانیہ میں تو 2010 سےسوشل میڈیا کے قوانین پر سختی سےعمل کیا جارہا ہے۔ 2011 کی بات ہے،برطانیہ میں ایک پاکستانی نوجوان روزانہ ایک لڑکی کی تصویر فیس بک پر کسی خوبصورت جملے کے ساتھ شیئر کردیتا تھا۔ لڑکی نے پولیس کو اطلاع دی۔ نوجوان کو گرفتار کرلیا گیا۔ 

پاکستانی نوجوان کے وکیل نے اسے کہاکہ ’’تمہیں کم سے کم ایک سال قید کی سزا ضرور ہوگی‘‘۔ جس پر بیچ کا راستہ تلاش کیا گیا۔ بڑی مشکل سے لڑکی نے درخواست واپس لی مگردرخواست واپس لینے پر لڑکی سے اخراجات کی مد میں پولیس نے پانچ ہزار پونڈ وصول کئے جو لڑکے کے والد نے ادا کئے۔ تب کہیں جاکر وہ کیس ختم ہوا۔بہر حال میرے نزدیک پاکستان میں سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔