بلاگ
Time 02 ستمبر ، 2020

رحمت، زحمت کیوں بنی؟

فوٹو: فائل

کراچی سب کو کھلا رہا ہے اور سب مل کر کراچی کو کھا رہے ہیں، پورے پاکستان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن اس ہڈی کو سب نے مل کر چکنا چور کردیا۔

کسی نے اس کی روشنیاں بجھا کر تاریک کردیا، کسی نے اس کی محبتیں چھین کر دہشت کا مسکن بنا دیا، کسی نے اس کی دولت لوٹ کر اس باوسائل شہر کو بے وسائل بنا دیا، کسی نے مسالک اور مذاہب کامسکن بناکر ان بنیادوں پر نفرتوں کو ہوا دی اور اب قدرت کا نظام ایسا غضبناک ہوا کہ اسے پانی کا تالاب بنا ڈالا۔ 

کراچی ڈوبارہا لیکن مرکزی حکومت ، صوبائی حکومت کو، صوبائی حکومت ضلعی اور وفاقی حکومتوں کو جبکہ پی ایس پی اور دیگر جماعتیں سب کو الزام دیتی رہیں حالانکہ ذمہ داری سے کوئی مبرا نہیں۔ 

جنرل ایوب خان نے دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کرکے اسے عدم توجہی کا شکار بنایا، بھٹو نے کوٹہ سسٹم کے ذریعے اپنا حصہ ڈالا،جنرل ضیا نے پیپلز پارٹی کو آؤٹ کرنے کے لیے ایم کیوایم بنا کر اور مذہبی تنظیموں کی سرپرستی کرکے کراچی کی تباہی میں اپنا حصہ ڈالا۔ 

ایم کیوایم نے تشدد، بھتے اور بوری بند لاشوں کو رواج دے کر اس شہر کو دہشت بنا دیا، پرویز مشرف نے ایم کیوایم کی سرپرستی کرکے اس کی لوٹ مار اور قتال کی صلاحیت کو مہمیز دی، جس کا جتنا بس چلا اس نےکراچی کو تباہ کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔

تاہم اب کی بار کی بارشوں سے ایسا لگا کہ قدرت بھی کراچی پر برہم ہوگئی اور یکدم ایسی بارش برسی کہ کراچی تو کیا اندرون سندھ میں بھی کئی شہر تالاب بن گئے، کراچی کے ساتھ کس نے کیا سلوک اور کیوں روا رکھا یہ تو اب راز نہیں رہا لیکن میرے لیے قدرت کی برہمی معمہ بنی رہی۔ 

چنانچہ اس کھوج میں لگ گیا کہ معلوم کرسکوں کہ کراچی کے حوالے سے موسم اس قدر انتہاپسند کیوں بن گیا؟ اس حوالے سےتحقیق کرتے ہوئے ڈاکٹر عادل نجم جیسے ماہرین موسمیات سے معلومات حاصل کیں اور کچھ مطالعہ کیا تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ 

پتہ چلا کہ کراچی میں بارشوں کی صورت میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے لیکن اس سے زیادہ تشویشناک انکشاف یہ ہوا کہ اس کی وجہ سے صرف کراچی نہیں بلکہ لاہور سے لے کر کوئٹہ اور اسلام آباد تک اور گلگت بلتستان سے لے کر چترال تک ، ہر شہر اور گاؤں شدید خطرے سے دوچار ہے۔ 

گلوبل وارمنگ کے ایسے تہہ درتہہ نقصانات اور اثرات کا پتہ چلا کہ یہ مسئلہ ام المسائل نظر آیا اور یہ انکشاف ہوا کہ ملکی مستقبل اور انسانی زندگیوں کے حوالے سے تو وزیر ماحولیات زرتاج گل صاحبہ کی ذمہ داری ، مراد سعید اور زلفی بخاری کی ذمہ داریوں سے ہزار گنا زیادہ اہم ہے۔

میری تحقیق کے چند موٹے موٹے نکات آپ بھی ملاحظہ کیجئے اور پھر فیصلہ کیجئے کہ میری تشویش بجا ہے یا نہیں۔

پہلا نکتہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ عموما گرمی کا بڑھ جانا یا آلودگی کو کلائمیٹ چینج سمجھتے ہیں لیکن معاملہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے، گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا کا ٹمپریچر دو درجے بڑھ گیا ہے، جس کی وجہ سے ہر علاقے میں مختلف قسم کی موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ 

پاکستان پر یہ اثر پڑا ہے کہ یا تو مسلسل خشک سالی ہوگی اور یا پھر یکدم ایسی بارشیں ہوں گی جس طرح کہ کراچی میں ہوئیں، پانچ چھ ماہ میں بارش کی صورت میں جو پانی برستا تھا، وہ اب ایک دو دن میں برسے گااور وہی حشر کرتا رہے گا جو اب کراچی کا ہوا۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ موسم کی اس افراط و تفریط کی وجہ سے ہماری زراعت دو صورتوں میں متاثر ہوگی، ایک تو یکدم زیادہ ہونے والی بارشوں سے فصلیں تباہ ہوں گی جس طرح اندرون سندھ کے علاقوں میں ہوئی ہیں اور دوسرا ہمارے کسان جو گرمی، سردی اور بارشوں کی سالانہ ترتیب کو ذہن میں رکھ کر فصلیں اگاتے تھے، آئندہ وہ ایسا نہیں کرسکیں گے ۔ 

یعنی کسان اسی طرح پلاننگ نہیں کرسکے گا جس طرح کہ ماضی میں کرتا رہا، یہ صورت حال رہی تو ہمارے ملک کے اکثر علاقے پانی کی قلت کاشکار ہوکر سوکھ جائیں گے، وجہ اس کی یہ ہے کہ پورا سال وقفے وقفے سے برسنے والی بارشوں کی بجائے اب یہ رجحان بڑھے گا کہ یا تو پورا سال خشک سالی ہوگی یا پھر پورے سال کا پانی یکدم برسے گا اور اس پانی کو جمع کرنے کا ہمارے پاس کوئی انتظام نہیں۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ میں پاکستان کا اپنا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، سب سے زیادہ حصہ چین ، پھر امریکا اور پھر دیگر صنعتی ممالک کا ہے اور پاکستان پہلے دس یا بیس ممالک کی فہرست میں بھی شامل نہیں لیکن گلوبل وارمنگ سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان ساتویں نمبر پر ہے۔

چوتھا خطرناک نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کا شمار ان چند ایک ممالک میں ہے جہاں سب سے زیادہ گلیشیرز ہیں، یہ گلیشیر ابھی تک غنیمت تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مصیبت بنتے جائیں گے۔

گلگت بلتستان اور چترال جیسے علاقوں میں یہ گلیشیر وقت کے ساتھ ساتھ پگھل رہے ہیں، یہ ہمیں سال بھر پانی فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی یہ صلاحیت ختم ہوجائے گی،گرمی کی وجہ سے یہ گلیشیر اندر سے خالی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے پھٹنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ 

عطا آباد جھیل اسی طرح کے حادثے کے نتیجے میں بنی، اس سے قبل سیاچن میں برف کا گلیشیر گرجانے سے ہمارے سو سے زائد فوجی جوان شہید ہوئے، پھر جب یہ گلیشیر پھٹتے ہیں تو یکدم سیلاب کا باعث بنتے ہیں جس طرح کہ امسال چترال میں دو گلیشیر پھٹ گئے۔

پانچواں نکتہ یہ ہے کہ اگر عالمی سطح پر گلوبل وارمنگ کا سلسلہ نہ روکا گیا اور اسی طرح سے معاملہ آگے بڑھتارہا تو ماہرین کے مطابق 2100 تک یعنی آج سے اسی سال بعد سطح سمندر 20میٹر تک اوپر آجائے گی جس کی وجہ سے صرف کراچی ہی نہیں بلکہ سمندر کے کنارے واقع ڈھاکہ، وینس، نیویارک اور شنگھائی جیسے سب شہر ختم ہوسکتے ہیں۔

یہ تو وہ خطرات ہیں جن کا دنیا کے صنعتی ممالک کے کرتوتوں کی وجہ سے باقی دنیا کی طرح پاکستان کو بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کی صورت میں سامنا ہے لیکن پاکستان میں آلودگی اور دھند یا اسموگ کا مسئلہ اس کے علاوہ ہے ۔ ہماری اس مسئلے پر تشخیص درست ہے اور نہ علاج ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔