01 ستمبر ، 2020
اِس برسات کے موسم نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ساتھ جو کیا اُسے دیکھ کر قتیل شفائی کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
یہ وہ بارش تھی جو رحمت سے زحمت بن گئی، غریبوں کی بستیاں اجڑ گئیں اور امیروں کے بنگلے بھی محفوظ نہ رہے، بھری برسات میں لوگ پینے کے پانی کو ترس گئے کیونکہ بارش کے پانی نے شہر کو کچرے اور گندگی کا سمندر بنا دیا، ایک بارش آسماں سے برسی دوسری بارش مجبور اور لاچار لوگوں کی آنکھوں سے برس رہی تھی۔
اس بارش نے بے اختیار اور با اختیار کی تمیز ختم کر دی۔ بے اختیار بھی شہر کی سڑکوں پر کشتیوں کے منتظر تھے اور بااختیار لوگوں کی بھی بڑی بڑی گاڑیاں بارش کے پانی میں بہہ گئیں۔
میڈیا نے بارشوں سے پہلے ہی شور مچا دیا کہ ابھی کورونا وائرس کا عذاب ختم نہیں ہوا اور برسات کا موسم آنے والا ہے اس برسات میں شہر کو تباہی سے بچانے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔
میڈیا کی اس وارننگ پر سیاست شروع ہو گئی، شہر کے میئر نے کہا کہ میرے پاس وسائل کی کمی ہے، میں بے اختیار ہوں، صوبائی حکومت نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمیں مناسب فنڈز نہیں دیئے اور وفاقی حکومت نے دعویٰ کیا کہ ہم نے تو بہت فنڈز دیئے ہیں لیکن صوبے کی حکومت کرپٹ اور نا اہل ہے۔
بیان بازی کا ایک مقابلہ شروع ہو گیا اور اس مقابلے میں وزیراعظم عمران خان نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو حکم دیا کہ کراچی کے گندے نالے صاف کئے جائیں۔ نالوں کی صفائی شروع ہو گئی۔
وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت میں ورکنگ ریلیشن شپ بہتر بنانے کے لئے ایک کوارڈی نیشن کمیٹی بھی بنائی گئی لیکن بارش اتنی زیادہ ہوئی کہ اس میں سب کمیٹیاں بہہ گئیں، اس بارش نے سرجانی ٹائون، ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی اور بحریہ ٹائون کا فرق مٹا دیا۔
سارے محمودوں اور ایازوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا اور یہ صف تھی نا اہلی اور نا اتفاقی کی، نا اہل لوگ کسی قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لئے اتفاق اور اتحاد قائم کر لیں تو نقصان کو کم ضرور کر سکتے ہیں لیکن ہمارے محمود تو یہ فرما رہے تھے کہ میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا اور سب ایاز دل ہی دل میں اپنے سلطان کی ناکامی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔
تو جناب کراچی میں وفاقی، صوبائی اور ضلعی حکومت سمیت سب سلطان ناکام ہو گئے۔ ناکامیوں کی یہ داستان صرف کراچی تک محدود نہیں، سندھ کے کئی شہروں اور دیہاتی علاقوں کے علاوہ بلوچستان کے بہت سے علاقے، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے بعض شہروں میں بھی ریاست اپنے شہریوں کی بروقت مدد نہیں کر سکی۔
میں نے کچھ صاحبان اختیار کو یہ بڑبڑاتے سنا کہ لوگ ٹیکس تو دیتے نہیں اور حکومت سے ہر قسم کی سہولت بھی مانگتے ہیں، آپ نے ٹیکس وصول کرنے والے ادارے کو سیاسی انتقام کے لئے ایک دوسرا نیب بنا دیا ہے، دو سال میں ایف بی آر کے چار سربراہ تبدیل کئے گئے تاکہ ایک جج پر لگائے جانے والے الزامات کو سچ ثابت کیا جا سکے۔
جس ادارے پر کوئی جج اعتبار نہ کرے اُس پر عام آدمی کیا اعتبار کرے گا؟۔ یہی ہمارا اصل المیہ ہے۔ جب بارش آتی ہے تو پانی آتا ہے اور یہ پانی حکمرانوں کے سب وعدوں اور دعوئوں کو بہا لے جاتا ہے۔ حکمرانوں کے وعدے عبدالحمید عدم کی غزل نہیں ہوتے جنہوں نے فرمایا تھا۔
بارش شراب عرش ہے یہ سوچ کر عدم
بارش کے سب حروف کو اُلٹا کے پی گیا
بارش کے حروف کو اُلٹا پڑھیں تو یہ شراب بن جاتی ہے۔ ان حروف کو اُلٹا کر شاعر تو یہ شراب پی سکتا ہے لیکن عام آدمی ایسی چیزیں نہیں پی سکتا۔ اُسے تو وہ چاہئے جس کا وعدہ اُس کے ساتھ الیکشن کے جلسوں اور منشوروں میں کیا گیا تھا۔ عام آدمی سے کہا گیا تھا کہ میں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا، میں پٹرول اور بجلی مہنگی نہیں کروں گا، میں مہنگائی کم کر دوں گا، میں آپ کی زندگی آسان کر دوں گا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔
جب کوئی وعدہ پورا نہ ہوا تو اُن وعدوں سے توجہ ہٹانے کے لئے نئے وعدے کئے جانے لگے۔ نیا وعدہ یہ ہے کہ میں نواز شریف کو پاکستان واپس لائوں گا۔ سوال یہ ہے کہ آپ تو اسحاق ڈار کو پاکستان واپس نہ لا سکے تو نواز شریف کو واپس کیسے لائیں گے؟ ایک سفارتکار نے مجھ سے پوچھا کہ ایم کیو ایم کے بانی کے خلاف پاکستان میں قتل اور دہشت گردی کے درجنوں مقدمات درج ہیں، اُنہیں کئی مقدمات میں سزائیں ہو چکیں وہ اشتہاری قرار دیئے جا چکے اگر اُنہیں واپس نہیں لایا جا سکا تو نواز شریف کو کیسے واپس لایا جائے گا؟
میرے پاس مسکرا کر یہ سوال ٹالنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا لیکن جب سفارتکار نے یہ سوال دہرایا تو میرے صبر کا پیمانہ کچھ لبریز ہو گیا اور میں نے قدرے گستاخانہ انداز میں کہا کہ آپ کو یہ سوال وزیراعظم سے پوچھنا چاہئے؟ سفارتکار نے میرے گستاخانہ لہجے کو اپنی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا نواز شریف بھی اپنے بھائی شہباز شریف کی طرح خود ہی واپس آ جائیں گے؟ میں نے اپنی غیرت و حمیت کو جیب میں ڈالا اور ہاتھ جوڑ کر ان صاحب کے سامنے کہا...’’سر، مجھے معاف کر دیں، مجھے کچھ پتہ نہیں‘‘۔
افسوس کہ ایک بارش سچ اور جھوٹ کا فرق ختم کر دیتی ہے، سیاسی وعدوں اور دعوئوں کی بارش حکومت اور اپوزیشن کا فرق بھی ختم کر دیتی ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ حکومت سچی ہے یا اپوزیشن؟ یہ معاملہ صرف اہل سیاست تک محدود نہیں۔
اہل صحافت بھی سچ کے نام پر جھوٹ بولتے دکھائی دیتے ہیں حالانکہ ان میں سے کوئی بھی اس ملک میں رہ کر سچ بولنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ جب تک اس ریاست کے شہریوں کو آئین کے مطابق سچ بولنے کا اختیار نہیں ملے گا اس ریاست پر جھوٹ کی حکمرانی رہے گی اور ہر بارش حکمرانوں کے وعدوں کو بہاتی رہے گی۔ قتیل شفائی سو مرتبہ کہتا رہے کہ
کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤسچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں
لیکن آج کا سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ یہاں سچ کے نام پر بھی جھوٹ بولا جاتا ہے۔