20 ستمبر ، 2020
سابق وزیراعظم و مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) سے خطاب میں کہا ہے کہ عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا سنگین جرم ہے، عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کیا جائے۔
پیپلزپارٹی کی میزبانی میں اسلام آباد میں حزب اختلاف کی آل پارٹیز کانفرنس میں نواز شریف نے لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کیا۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں وطن سے دور ہوتے ہوئے جانتا ہوں کہ وطن عزیز کن مشکلات سے دوچار ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اس اے پی سی کو فیصلہ کن موڑ سمجھتا ہوں، ایک جمہوری ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مصلحت چھوڑ کر فیصلے کریں، پاکستان کو ہمیشہ جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے، جمہوریت کی روح عوام کی رائے ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ملک کا نظام وہ لوگ چلائیں جنہیں لوگ ووٹ کے ذریعے حق دیں۔
ڈکٹیٹر کو بڑے سے بڑے جرم پر کوئی چھو بھی نہیں سکتا: قائد ن لیگ
لیگی قائد کا مزید کہنا تھا کہ آئین کے مطابق جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے ہے، جب ووٹ کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے تو جمہوری عمل بے معنی ہو جاتا ہے، انتخابی عمل سے قبل یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ کس کو ہرانا کس کو جتانا ہے، کس کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے، مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایسے تجربات کی لیبارٹری بنا کر رکھ دیا گیا ہے، اگر کوئی حکومت بن بھی گئی تو اسے پہلے بے اثر پھر فارغ کر دیا جاتا ہے، بچے بچے کی زبان پر ہے کہ ایک بار بھی منتخب وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ آئین پر عمل کرنے والے ابھی تک کٹہروں اور جیلوں میں ہیں لیکن کیا کبھی کسی ڈکٹیٹر کو سزا ملی؟
انہوں نے مزید کہا کہ ڈکٹیٹر کو بڑے سے بڑے جرم پر کوئی اسے چھو بھی نہیں سکتا، کیا کسی ڈکٹیٹر کو سزا ملی؟ ایک ڈکٹیٹر پر مقدمہ چلا خصوصی عدالت بنی،کارروائی ہوئی، سزا سنائی گئی لیکن کیا ہوا؟
ان کا کہنا تھا کہ ووٹ سے بنا وزیراعظم کوئی قتل، کوئی پھانسی اور کوئی غدار قرار دیا گیا، منتخب وزیراعظم کی سزا ختم ہونے کو آہی نہیں رہی، یہ سزا عوام کو مل رہی ہے۔
انتخابات ہائی جیک کرنا آئین شکنی ہے: سابق وزیراعظم
قائد مسلم لیگ ن نے کہا کہ یہاں مارشل لاء ہوتا ہے یا متوازی حکومت قائم ہو جاتی ہے، یوسف رضا گیلانی نے ایک بار کہا تھا کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے لیکن معاملہ ریاست کے اندر سے نکل کر ریاست کے اوپر چلا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری میں ہماری ساکھ ختم ہو کر رہ گئی ہے، نتائج تبدیل نا کیے جاتے تو بے ساکھی پر کھڑی یہ حکومت وجود میں نہ آتی، انتخابات ہائی جیک کرنا آئین شکنی ہے، عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا سنگین جرم ہے۔
نواز شریف نے سوال کیا کہ 2018 کے عام انتخابات میں گھنٹوں آر ٹی ایس کیوں بند رہا؟ انتخابات میں دھاندلی کس کے کہنے پر کی گئی؟ اس کا سابق چیف الیکشن کمشنر اور سیکرٹری کو جواب دینا ہو گا جو دھاندلی کے ذمہ دار ہیں انہیں حساب دینا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس نااہل حکومت نے پاکستان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے، ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسا دینے والوں نے لوگوں کا روزگار چھین لیا، ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسہ دے کرایک کروڑ 20 لاکھ افراد کو بے روزگار کردیا گيا، سی پیک کنفیوژن کا شکار ہے، کوئی ایک ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا گیا، اگر پاکستان میں ووٹ کو عزت نا ملی تو ملک مفلوج ہی رہے گا۔
’کٹھ پتلی حکومت کو دیکھ کر بھارت نے کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا‘
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک بے امنی اور افراتفری کا گڑھ بن چکا ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے کا اختیار عوامی نمائندے کے پاس ہونا چاہیے، ہم کبھی ایف اے ٹی ایف کبھی کسی اور فورم میں کھڑے جواب دے رہے ہوتے ہیں، ایک غیر مقبول کٹھ پتلی حکومت کو دیکھ کر بھارت نے کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا، کیوں آج دنیا ہماری بات سننے کو تیار نہیں؟ کیوں ہم تنہائی کا شکار ہیں؟
انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بیانات دیے جس سے سعودی عرب کی دل شکنی ہوئی، ہمیں او آئی سی کو مضبوط کرنا چاہیے۔
’جاوید اقبال عہدے کا نازیبا استعمال کرتے پکڑا جاتا ہے لیکن ایکشن نہیں ہوتا‘
قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ نیب کے کردار کا جائزہ لینا ضروری ہے، یہ بات سچ ہے کہ نیب قوانین کو ختم نہ کرنا ہماری غلطی تھی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہمیں اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ ادارہ انتقام کا آلہ کار بن جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب جاوید اقبال عہدے کا نازیبا استعمال کرتے پکڑا جاتا ہے لیکن ایکشن نہیں ہوتا، یہ شخص ڈھٹائی سے عہدے پر براجمان ہے، بہت جلد سب کا یوم حساب آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ نیب اپنا جواز کھو چکا ہے، صرف اپوزیشن اس کا نشانہ بنی ہوئی ہے، جو نیب سے بچتا ہے اسے ایف آئی آے کے سپرد کر دیا جاتا ہے، جو ایف آئی اے سے بچ جاتا ہے اسے اینٹی نارکوٹکس پکڑ لیتی ہے اور جو وہاں سے بچ جائے اسے کسی اور کیس میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
عمران خان کے پاس زمان پارک گھر کے لیے پیسوں کا کوئی پوچھے گا؟ نواز شریف
سابق وزیراعظم نے الزام عائد کیا کہ چینی کی قیمت بڑھانے میں عمران خان کی ذات ملوث ہے، کیا نیب اسے گرفتار نہیں کرے گا۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا نیب علیمہ خان کے اثاثوں کی چھان بین کرے گا؟ بنی گالہ گھر غیر قانونی تعمیر کیا گیا، کیا اس کی فائل ایسے ہی بند رہے گی؟
ان کا کہنا تھا کہ کیا الیکشن کمیشن غیر ملکی فنڈنگ پر فیصلہ نہیں کرے گا؟ کیا ان سب پر کوئی فوجداری مقدمہ قائم نہیں ہوگا؟
نواز شریف نے کہا کہ بنی گالہ کی اتنی بڑی جائیداد کیسے بنی؟ کوئی جے آئی ٹی نہیں بنے گی؟ عمران خان کے پاس زمان پارک گھر کے لیے پیسے کہاں سے آئے؟ کیا کوئی پوچھے گا؟
انہوں نے کہا کہ اے پی سی روایت سے ہٹ کر حقیقی تبدیلی کیلئے اقدامات تجویز کرے، آج ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم قومی مفاد کی خاطر ایک ہیں، اگر ہم نے روایت سے ہٹ کر پختہ فیصلے کیے تو یہ کانفرنس کامیاب ہو گی۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اے پی سی میں پارٹی صدر شہباز شریف اور مریم نواز سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔