09 نومبر ، 2020
ایک محنت کش خاندان میں آنکھیں کھولنے والے 77 سالہ جوبائیڈن کڑے مقابلے کے بعد بلآخر امریکی صدر کے انتخابات جیت کر امریکا کے 46 ویں صدر بننے جارہے ہیں۔
قومی رائے شماری میں جوبائیڈن کو ڈونلڈ ٹرمپ پر برتری حاصل ہونے کے باوجود اگرچہ انتخابی معاملہ سخت سےسخت رہا لیکن نومنتخب امریکی صدر اور ان کی ٹیم امریکی صدارت کے لیے کی جانے والی تیسری کوشش میں تمام مشکلات پر قابو پاتے ہوئے بلآخر ناقابل شکست فتح سے ہمکنار ہوگئی۔
تاہم آج بھی ہر ایک یہ جاننے میں دلچسپی رکھتا ہے کہ آیا وہ کون سی وجوہات ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دیتے ہوئے ایک کارسیلز مین کے بیٹے کو امریکی صدارتی عہدے پر براجمان کرنے کی وجہ بن گئی۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ میں جوبائیڈن کی کامیابی 5 اہم وجوہات سے منسلک کی گئی ہے۔
عالمی وبا: کووڈ 19
ڈیموکریٹک جوبائیڈن کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ برطانوی ماہرین عالمی وبا کووڈ 19 کو قرار دیتے ہیں۔
ان کے مطابق کورونا وائرس سے امریکا میں 2 لاکھ 30 ہزار جانوں کے ضیاع ہونے کے بعد امریکیوں کی زندگی اور سیاست میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی جس کا اعتراف خود ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنی انتخابی مہم کے آخری ایام میں وسکونین ریلی سےخطاب کے دوران کچھ اس طرح کرچکے ہیں۔
’ہر چیز کوووڈ کووڈ کووڈ ہے‘
پیو ریسرچ کی جانب سے کیے گئے ایک سروے میں عالمی وبا سے نمٹنے سے متعلق سوال کیا گیا کہ امریکی عوام کس صدارتی امیدوار کی کارکردگی پر زیادہ اعتماد کرتے؟
نتائج میں امریکی عوام ٹرمپ کے مقابلے جوبائیڈن کی کارکردگی سے 17 فیصد زیادہ مطمئن نظر آئے۔
یہی نہیں موسم گرما کے دوران گیلپ سروے میں بھی ٹرمپ کی عوامی مقبولیت میں کووڈ 19 کے سبب 38 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ یہی وہ اہم وجہ تھی جس کا فائدہ بائیڈن نے اٹھایا اور صدارتی کرسی کا مقابلہ جیت لیا۔
اپنے پورے سیاسی کیریئر کے دوران جوبائیڈن کا شمار لفظوں کے ذریعے خود کو مشکل میں ڈالنے والے شخصیات میں کیا جاتا رہا ہے۔
1987 کی صدارتی مہم میں جوبائیڈن کی شکست کی وجہ بھی ان کی لاپرواہی میں کی جانے والی گفتگو بنی۔
2020 میں صدارتی عہدے تک پہنچنے کی تیسری کوشش کے دوران بھی جوبائیڈن کے متنازع بیانات سامنے آئے لیکن انہیں قلیل مدتی مسائل سے زیادہ توجہ حاصل نہ ہوسکی۔
تاہم اس بار بائیڈن کی انتخابی مہم کی حکمت عملی بنانے والے ٹیم نے اس بات کو محسوس کرتے ہوئے بائیڈن کی عوامی تشہیر کو محدود کردیا جس کے باعث انتخابی مہم کو مسائل سے پاک بنایا۔
یہاں بائیڈن کی خوش قسمتی کی وجہ دیگر بڑے مسائل مثلاًعالمی وبا کووڈ 19 کا آنا، جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد کیا جانے والا احتجاج اور معاشی بدحالی جیسے عوامل بھی قرار دیے جاسکتے ہیں جو عوام توجہ زیادہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
بائیڈن کی فتح کی وجہ ان کی انتخابی مہم کا محور وہ مفروضہ بھی بن گیا جس کے پیش نظر ڈیموکریٹس سے تعلق رکھنے والے جوبائیڈن انتخابی مہم کے دوران امریکی عوام کو بار بار یہ باآور کرواتے رہے کہ ٹرمپ ایک تقسیم پسند اور اشتعال انگیز شخصیت کے مالک ہیں جب کہ اس کے برعکس امریکی عوام کو ایک پرسکون مستحکم لیڈرشپ کی ضرورت ہے۔
چنانچہ بائیڈن نےامریکی عوام کے لیے ایک متاثر کن پیغام اپنایا کہ ’وہ ٹرمپ نہیں ہیں‘۔
بائیں بازو کے خیالات کی حامل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والےجوبائیڈن نے لبرلزم کے پیروکاروں کے شدید دباؤ کے باوجود گورنمنٹ ہیلتھ کیئر ،فری کالج اور ویلتھ ٹیکس سے انکار کرتے ہوئے درمیانے درجے کی حکمت عملی اپنائی۔
یہی وجہ ہے کہ درمیانے خیالات کے مالک ووٹرز کے درمیان جوبائیڈن جلد ہی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
دوسری جانب انتخابی مہم میں شامل ماحول اور موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام سے متعلق پہلو کے ذریعے بھی جوبائیڈن نوجوان ووٹرز کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
اگرچہ رواں برس کے آغاز میں جوبائیڈن کی انتخابی مہم چلانے والی ٹیم کی مالیاتی پوزیشن غیر مستحکم تھی لیکن اپریل کے بعد ٹیم کی جانب سے رقم اکٹھی کرنے کی کوششوں میں اضافہ کیا گیا اور برطانوی رپورٹ کے مطابق اکتوبر کے آغاز میں جوبائیڈن کی انتخابی مہم کی مالیاتی پوزیشن ٹرمپ کی مہم کے مقابلے بہتر ہوگئی۔
کیونکہ اس دوران جوبائیڈن کی انتخابی مہم چلانے والی ٹیم کے پاس موجود رقم ٹرمپ کی ٹیم کے مقابلے 14 کروڑ 40 لاکھ ڈالر زائد تھی۔
یہ زائد رقم بھی ریپبلکنز ڈونلڈ ٹرمپ سے کڑے مقابلے میں ڈیموکریٹک جوبائیڈن کی جیت کا باعث بنی۔