09 نومبر ، 2020
سپریم کورٹ نے جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کی ضمانت منظور کر لی۔
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل تین رکنی بینچ نے میر شکیل الرحمان درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
میر شکیل کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے عدالت میں دلائل دیے کہ میر شکیل الرحمان کو الاٹ زمین سے قومی خزانےکو ایک دھیلےکا نقصان نہیں ہوا، موجودہ ریفرنس 4 لوگوں کے خلاف دائر ہوا، لیکن درخواست گزارکے علاوہ کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا، میر شکیل الرحمان کو انکوائری کے وقت 12 مارچ کو گرفتار کیا گیا۔
جسٹس قاضی امین نے دریافت کیا کہ کیا نیب نے قومی خزانے کو نقصان کا کوئی سوال اٹھایا ؟ امجد پرویز نے بتایا کہ نیب نے ایک روپے کے نقصان کا سوال نہیں اٹھایا، خریدی گئی زمین پر تعمیرات ایل ڈی اے کی منظوری کے بعد کی گئیں، آج تک ان تعمیرات پرکوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا، 34 سال بعد ایک شہری کی درخواست پر یہ کیس دائر ہوا۔
یاد رہے کہ 3 نومبر کو سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے میر شکیل الرحمان کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کی تاہم نیب پراسیکیوٹر نے دو رکنی بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے ججز کی تعداد بڑھانے کی درخواست کی جس پر عدالت نے تین رکنی بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجواتے ہوئے درخواست ضمانت کی سماعت ایک ہفتہ کے لیے ملتوی کر دی تھی۔
کیس کا پس منظر
میر شکیل الرحمان نے 1986 میں لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں 54 کنال پرائیویٹ پراپرٹی خریدی، اس خریداری کو جواز بنا کر نیب نے انھیں 5 مارچ کو طلب کیا، میر شکیل الرحمان نے اراضی کی تمام دستاویزات پیش کیں اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا۔
نیب نے 12 مارچ کو دوبارہ بلایا، میر شکیل انکوائری کے لیے پیش ہوئے تو انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق اراضی کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے دوران اُن کی گرفتاری بلا جواز تھی کیونکہ نیب کا قانون کسی بزنس مین کی دوران انکوائری گرفتاری کی اجازت نہیں دیتا۔
لاہور ہائیکورٹ میں دو درخواستیں، ایک ان کی ضمانت اور دوسری بریت کے لیے دائرکی گئیں، عدالت نے وہ درخواستیں خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ مناسب وقت پر اسی عدالت سے دوبارہ رجوع کر سکتے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے 8 جولائی کو میر شکیل الرحمان کی درخواست ضمانت بعداز گرفتاری خارج کی تھی جس پر ایڈیٹر انچیف جنگ اور جیو نے 11 ستمبر کو سپریم کورٹ میں یہ درخواست دائر کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں درخواست کی جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں ضمانت کیا جائے۔