Time 13 نومبر ، 2020
پاکستان

مریم نواز نے اپنے مؤقف میں نرمی کیوں کی؟

فائل فوٹو

اسلام آباد: مریم نواز نے بالآخر اداروں کے مابین مذاکرات کے حق میں اپنا موقف نرم کر لیا ہے اور کہا ہے کہ پی ڈی ایم اسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہے جس کے اہم کھلاڑیوں پر حالیہ ہفتوں کے دوران نواز شریف نے تنقید کی تھی۔

بی بی سی اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اگرچہ انہوں نے اعتراف کیا کہ اسٹیبلشمنٹ نون لیگ کے رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کیا باتیں ہو رہی ہیں۔

ان کے والد نے اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حکومت کے خاتمے، نااہل قرار دیے جانے اور 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حق میں دھاندلی کا قصور وار قرار دیا تھا۔ تاہم مریم نے پیشگی شرط یہ رکھی ہے کہ مذاکرات کے آغاز کیلئے عمران خان کی حکومت کو ہٹانا ہوگا۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ نون لیگ کے موقف میں تبدیلی پس پردہ ہونے والی حالیہ پیش رفت کا نتیجہ ہو سکتی ہے جس کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ملک کے سیاسی منظرنامے میں ’تبدیلی کی ہوائیں‘ چلنا شروع ہو گئی ہیں۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا حصہ سمجھی جانے والی جماعتوں کے ساتھ مبینہ طور پر رابطے کیے گئے ہیں تاکہ ’تبدیلی‘ کو تبدیل کرنے کے آپشنز پر غور کیا جا سکے۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران پس پردہ اہم مذاکرات ہوئے ہیں جو اگرچہ براہِ راست نہیں ہیں لیکن ’حوصلہ افزا‘ ضرور ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بالواسطہ مذاکرات پی ڈی ایم کی تین جماعتوں پیپلز پارٹی، نون لیگ اور جے یو آئی ف کے ساتھ کیے گئے، ان رابطوں میں پنجاب اور مرکز میں تبدیلی پر بات ہوئی۔

گزشتہ اتوار کو پی ڈی ایم رہنماؤں کی اسلام آباد میں ایک اہم ملاقات ہوئی جس میں اہم رہنماؤں بشمول نواز شریف، آصف زرداری نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی جبکہ دیگر شرکاء میں شاہد خاقان عباسی، راجہ پرویز اشرف، مولانا فضل الرحمٰن، آفتاب شیرپائو، اختر مینگل اور اویس نورانی شامل تھے۔

اگرچہ پی ڈی ایم رہنمائوں نے ملاقات کے حوالے سے بات کرنے سے گریز کیا ہے کہ کس نے کس سے رابطہ کیا، لیکن کہا جاتا ہے کہ اس میں پنجاب کا معاملہ اور عثمان بزدار پر پہلے مرحلے کے طور پر بات کی گئی تاکہ تبدیلی لائی جا سکے جس کے بعد مرکز میں تبدیلی آئے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت عثمان بزدار کیخلاف عدم اعتماد کا ووٹ لانے کے حق میں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ق لیگ والے بھی حمایت کریں گے۔

پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ جو تبدیلی بھی آئے گی وہ آئین کی حدود میں رہتے ہوئے آئے گی۔

نون لیگ کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ وہ اس آپشن (بزدار کی تبدیلی) پر بات کریں گے لیکن کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کو اِس وقت دلچسپی نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر بزدار کو تبدیل بھی کیا گیا اور ان کی جگہ نون لیگ کا اتحاد آیا تو اس سے کچھ تبدیل نہیں ہوگا تاوقت یہ کہ نظام کو درست کیا جائے۔

پیپلز پارٹی پہلے مرحلے میں پنجاب میں تبدیلی کی حامی ہے۔ مذاکرات میں مولانا فضل الرحمٰن کیلئے چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر بھی بات چیت ہوئی لیکن کہا جاتا ہے کہ مولانا ایسی کسی بھی ’’ہائبرڈ تبدیلی‘‘ کیلئے تیار نہیں۔

مرکز میں اِن ہائوس تبدیلی کے حوالے سے پس منظر میں ہونے والی بات چیت میں احسن اقبال اور خواجہ آصف سمیت کچھ نام سامنے آئے ہیں۔

عثمان بزدار وزیراعظم عمران خان کے چہیتے ہیں جن کی وجوہات صرف وہی جانتے ہیں۔

پی ٹی آئی میں کئی لوگ انہیں پسند نہیں کرتے جبکہ جو لوگ اہم ہیں وہ بھی وزیراعلیٰ کو غیر موثر اور نا اہل سمجھتے ہیں لیکن عمران خان ڈٹے ہوئے ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب وہی رہیں گے چاہے کچھ ہو جائے۔

پی ڈی ایم کے ایک سینئر عہدیدار نے دی نیوز کو بتایا کہ پس منظر میں تجاویز پر بات ہوئی ہے تاکہ بزدار کیخلاف عدم اعتماد کا ووٹ لایا جائے، انہیں تبدیل کیا جائے اور اس کا نتیجہ عمران خان حکومت کے خاتمے پر ہوگا۔

ذریعے کا کہنا تھا کہ تبدیلی اس وقت تک اہم نہیں ہوتی جب تک نظام درست نہ ہو۔

حکومت کیخلاف اپوزیشن کی تحریک کے دوران، وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ جمعرات کو حکومتی اتحادیوں سے ملاقات کی جنہوں نے ان کے سامنے مسائل و شکایات کے انبار لگا دیے کہ انہیں ترقیاتی فنڈز نہیں مل رہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے اور فیصلہ سازی میں انہیں دور رکھا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان کو اس وقت مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے حکومتی اتحادی جماعتوں کے حق میں ظہرانہ دیا جس میں ق لیگ والوں نے شرکت نہیں کی۔

اس صورتحال کے دوران مونس الٰہی نے ٹوئیٹ کی کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ان کی جماعت کا اتحاد ظہرانوں کیلئے نہیں بلکہ ووٹ کیلئے تھا۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے اتحادیوں کو یقین دہانی کرائی کہ ان کے تمام مسائل جلد حل کیے جائیں گے اور وہ ان کا ذاتی طور پر جائزہ لے رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اتحادیوں کا اچانک عدم اطمینان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں اور پی ڈی ایم جماعتیں انہیں محسوس بھی کر رہی ہیں۔

میڈیا میں ق لیگ کے ذرائع کے حوالے سے اطلاعات ہیں کہ پارٹی پی ٹی آئی کے رویے سے خوش نہیں اور شکایت کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان اکثر لاہور آتے ہیں لیکن کبھی ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی سے ملاقات نہیں کرتے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، انہوں (وزیراعظم) نے ق لیگ کے علیل صدر چوہدری شجاعت کی خیریت بھی دریافت نہیں کی۔

وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ، جن کا تعلق ق لیگ سے ہے، کے حوالے سے بھی میڈیا نے بتایا کہ ق لیگ کے پاس عوام کو دکھانے کیلئے ایسی کوئی کارکردگی نہیں جو اب تک حکومت نے دکھائی ہو۔ ان کے حوالے سے میڈیا میں بیان آیا تھا کہ اگر پارٹی نے اپنے معاملات درست نہ کیے تو ہمارے لیے پی ٹی آئی کے ساتھ مزید چلنا بہت مشکل ہے۔

ایم کیو ایم کے لیڈر خالد مقبول صدیقی، وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا، جے ڈبلیو پی چیف شاہ زین بگٹی اور دیگر نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

یہ خبر روزنامہ جنگ میں 13 نومبر 2020 کوشائع ہوئی۔

مزید خبریں :