22 نومبر ، 2020
میر شکیل الرحمٰن آٹھ ماہ کی قید کاٹ کر بالآخر ضمانت پر رہا ہو گئے ہیں۔ اُن کی قید کے دوران جہاں میرا ہر لمحہ اذیت میں گزرا (کیوں گزرا یہ میں آگے چل کر بتاؤں گا) وہاں میرے اندر خوشی کی ایک لہر بھی موجزن رہی کیونکہ میں اپنے بچپن سے اُن صحافتی مشاہیر کے نام سنتاچلا آرہا تھا جنہوں نے آزادیٔ صحافت کے لئے قیدوبند کی مشکلات برداشت کیں، اپنے اخبار کے ڈکلیئریشن منسوخ کرائے، مالی مشکلات سے گزرے مگر جبر کے سامنے سر ِتسلیم خم نہیں کیا۔
پھر کوئی ایسا نام بھی سامنے نہیں آیا، البتہ اُس کے بہت عرصے کے بعد مجیب الرحمٰن شامی، حسین نقی، الطاف حسن قریشی، اعجاز حسن قریشی، محمد صلاح الدین اور ’’ڈان‘‘ کے ایڈیٹر الطاف گوہر نے قید کی اذیتیں برداشت کیں اور اُن میں سے بعض نے بار بار اپنے جرائد کے ڈکلیئریشن بھی منسوخ کرائے اور پھر کسی دوسرے نام سے جریدے شائع کرتے رہے۔
جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے والوں میں حمید نظامی اور مجید نظامی سرفہرست تھے تاہم اُنہیں قیدوبند کی صعوبتوں سے نہیں گزرنا پڑا۔ اور اب ایک طویل عرصے کے بعد میر شکیل الرحمٰن کی صورت میں ایک مردِ حُر سامنے آیا جس نے کئی چھوٹے بڑے جسمانی عوارض اور عمر کی چھٹی دہائی میں ہونے کے باوجود مشروط رہائی کی کوئی بھی پیشکش قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اُن کی پاسداری میرے لئے باعثِ مسرت تھی، اُن کی قید کی اذیت مجھے ذاتی طور پر کیوں محسوس ہوتی رہی اس کی وجہ میں ابھی بتاتا ہوں۔ اس سے پہلے ان کی 94سالہ والدہ ماجدہ کو میراسلام جو اپنے بیٹے کے غیرمتزلزل عزم کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں اور میرابراہیم کی جمہوری سوچ بھی قابلِ تحسین ہے جنہوں نے اپنے والد میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری اور قید کے دوران ادارے کی جمہوری ساکھ کو برقرار رکھا! جیو اور جنگ کے سارے عملے کے علاوہ پاکستان کی صحافتی برادری نے بھی اس ضمن میں جس طرح بھرپور اظہار یکجہتی کیا وہ بھی لائقِ صد تحسین ہے۔
میر صاحب کی قید کے دوران میں مسلسل اذیت کا شکار اس لئے بھی تھا کہ مجھے کئی بار انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اتنے بڑی ایمپائر کے مالک ہونے کے باوجود میں نے انہیں عجزو انکسار کا پیکر پایا۔ غرور نام کی کوئی چیز انہیں چھو کر بھی نہیں گئی تھی میں نے قریباً بیس برس قبل بطور کالم نویس ’’جنگ‘‘ جوائن کیا اس موقع پر انہوں نے جس مسرت کا اظہار کیا اور ادارے کے تحت شائع ہونے والے اردو اور انگریزی کے تمام جرائد کے سربراہوں کو اپنے کمرے میں بلا کر انہیں یہ ’’خوش خبری‘‘ سنائی وہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہونے کے باوجود باعث حیرت بھی تھا اور یہ اس لئے کہ مالکان ایسے مواقع پر اپنی خوشی کا اظہار اس طرح نہیں کیا کرتے بلکہ فوراً باس کا رویہ اختیار کرلیتے ہیں لیکن اس خاندان میں شاید یہ روایت ہی نہیں۔ میر صاحب کے والد مرحوم اور ’’جنگ‘‘ کے بانی میر خلیل الرحمٰن سے میری ایک ملاقات غالباً جرمنی میں ہوئی ،اس وقت تک میں نے جنگ جوائن نہیں کیا تھا وہ فتح محمد ملک کے ساتھ میرے پاس چل کر آئے معانقہ کیا اور ہنستے ہوئے کہا آپ ’’جنگ‘‘ کب جوائن کر رہے ہیں ؟‘‘ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا ’’آپ سمجھیں میں اسی وقت ’’حالتِ جنگ‘‘ میں ہوں جس پر وہ کھلکھلا اُٹھے۔
میر شکیل الرحمٰن جن کا ذکر اُن کے ادارے کے لوگ اُن کے نام کے مخفف یعنی ’’ایم ایس آر‘‘ کہہ کر کرتے ہیں،اپنی بےپناہ مصروفیات کی وجہ سے بہت کم تقریبات میں شرکت کرتے ہیں لیکن جب کراچی میں میرے بھائی جان ضیاء الحق قاسمی کی وفات ہوئی تو میر صاحب، اُن کی اہلیہ اور ان کی والدہ ماجدہ تعزیت کے لئے ہمارے ہاں آئے اور بہت دیر بیٹھے رہے۔ صرف یہی نہیں لاہور میں میرے دو بیٹوں عمر قاسمی اور علی عثمان قاسمی کے ولیمے میں بھی بطورِ خاص شرکت کی۔ وہ تقریب کے اختتام تک ہمارے ساتھ رہے۔ عجزو انکسار کے پیکر اس شخص کی کوئی ایک ادا ہو تو میں بیان کروں اِس قدر مصروف شخص کو دن میں سینکڑوں فون اور میسجز آتے ہیں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے انہیں کبھی فون یا میسج کیا ہو اور اسی وقت یا بعد میں ان کی طرف سے جواب نہ آیا ہو۔ دو ہفتے قبل قید کے دوران میں اُن کی عیادت کے لئے اسپتال گیا تو عام ملاقاتیوں کے برعکس یہ مجھے اپنے بیڈ روم تک لے گئے جہاں ان کی اہلیہ بھی موجود تھیں اور مسلسل دعائیں ان کے زیر لب تھیں۔ میں وہاں بہت دیر بیٹھا رہا اور بالآخر خود اجازت لیکر ان سے رخصت ہوا۔ اُن کی ملنساری کا یہ عالم ہے کہ میں ایک دفعہ دبئی گیا، اُنہیں اپنی آمد سے آگاہ کیا تو اُنہوں نے مجھے دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ دوسری بار دبئی جانے کا اتفاق ہوا اور میں نے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو خود میرے ہوٹل آگئے اور بہت دیر گپ شپ کرتے رہے۔ اب ایسا شخص اگر اذیت میں ہو تو کیسے ممکن ہے کہ میں اُس کیلئے خود بھی اذیت میں مبتلا نہ ہوتا؟
اس کے علاوہ بےشمار باتیں بیان کرنے کی ہیں مگر میں وہ اَن کہی چھوڑ رہا ہوں۔ ایک ایسا شخص جس نے ’’جیو‘‘ کو اپنی اہلیت اور محنت سے پاکستان کا سب سےبڑا ٹی وی چینل بنا دیا۔ مجھے اِس حوالے سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، اب یہ صرف ٹی وی چینل نہیں بلکہ جمہوریت کی یونیورسٹی ہے جس نے ایسے صحافی تیار کئے جنہوں نے آزادیٔ اظہار کے لئے اپنی جانیں بھی قربان کیں قاتلانہ حملوں کا شکار ہوئے، ٹارچر سیلز میں لے جائے گئے مگر اُن کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔جیو گروپ پر یہ ابتلا پہلی دفعہ نہیں آئی، اِس سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں بھی یہ ادارہ بہت سختیاں برداشت کرتا رہا ہے ، اُس وقت بھی ادارے نے کروڑوں روپوں کا نقصان برداشت کیا اور اِس دفعہ تو کروڑوں روپوں کے نقصان کیساتھ اُس کے ایڈیٹر کو قید و بند کی اذیتیں بھی برداشت کرنا پڑیں مگر اصولوں پہ سمجھوتہ کسی دور میں نہیں کیا۔ یہ ادارہ کسی جماعت یا کسی گروپ کا کبھی ترجمان نہیں رہابلکہ ہمیشہ ایک متوازن پالیسی پر کاربند رہا، چنانچہ یہ ادارہ سب کی نگاہوں میں کھٹکتا رہا۔ میں آخر ان سب کارکنوں کو بھی سلام کرتا ہوں یہ سب لوگ اپنے ایڈیٹر سمیت صحافتی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔