Time 05 دسمبر ، 2020
پاکستان

قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے بابا جان پر عائد الزامات کی حقیقت کیا ہے؟

گلگت بلتستان کی خوبصورت وادی ضلع ہنزہ میں 2011 میں ہنگامہ آرائی اور جلاؤ گھیراؤ کے الزام میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے عوامی ورکرز  پارٹی کے چیئرمین بابا جان سمیت 14 قیدیوں کو گزشتہ دنوں سزا معطل کر کے 9 سال بعد ضمانت پر رہا کیا گیا۔

ہنزہ کے علاقے ناصر آباد سے تعلق رکھنے والے 42 سال کے بابا جان سماجی کاموں میں حصہ لیتے لیتے ایک بے باک اور نڈر لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔

انھوں نے عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کے چیئرمین کی حیثیت سے عوامی حقوق اور لوگوں کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کا آغاز کیا۔

بابا جان کی رہائی کیلئے 9 سال سے چلائی جانے والی احتجاجی تحریک میں ان کی والدہ اور بہن نے کلیدی کردار ادا کیا۔

بابا جان کے مطابق 2011 میں سانحہ عطاء آباد کے متاثرین کے پرامن مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ سے ہلاکتوں کے بعد ہونے والی ہنگامہ آرائی کے واقعات میں انہیں الجھایا اور پھنسایا گیا۔

بابا جان کا کہنا ہے کہ پرامن جدوجہد پر یقین رکھتا ہوں اور احتجاج کیلئے ماچس کی تیلی تک جلانے کے حق میں نہیں۔

قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے بابا جان مستقبل میں سیاسی جدوجہد جاری رکھنے اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم ایپلیٹ کورٹ میں 2016 سے تاحال ایک جج کی خالی اسامی پر تعیناتی نہ ہونے کے باعث بابا جان کی نظرثانی اپیل اور اس نوعیت کی دیگر اپیلیں 4 سال سے التواء کا شکار ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں گلگت بلتستان حکومت نے بابا جان اور ان کے ساتھیوں کی سزائیں معطل کر کے 9 برس بعد انھیں رہا کیا تھا۔ 

رہا کیے جانے والے افراد کو عدالت نے 40 سال سے 90 سال تک قید بامشقت کی سزائیں سنائی تھیں۔

ان کی رہائی کیلئے رواں سال اکتوبر میں سات روز تک دھرنا دیا گیا تھا جس کے بعد  ان کی رہائی عمل میں آئی تھی۔

مزید خبریں :