18 دسمبر ، 2020
کسی دانا کا کہنا ہے کہ عقلمند دشمن بے وقوف دوست سے کہیں بہتر ہے اور یہ معاملہ فاسٹ بولر محمد کے کیس میں موقع محل کے اعتبار سے قدرے درست دکھائی دیتا ہے، جنہوں نے دورہ نیوزی لینڈ کے 35 کھلاڑیوں میں منتخب ہونے کی بھڑاس نکالنے کا انتخاب غلط وقت پر کیا، جس کا خمیازہ اگر یہ کہا جائےکہ انہیں ہی بھگتنا پڑا، تو یہ لکھنا بالکل غلط نہ ہوگا۔
گجر خان میں پیدا ہونے والے محمد عامر ایک با صلاحیت اور بہترین بولر تھے، البتہ 2010ء کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے ان کے کیرئیر کے قدم آگے بڑھنے سے پہلے ہی جکڑ لیے تھےاور پابندی کے بعد اب جب کے اُن کی بولنگ کی رفتار، اس کے غیر موثر ہونے پر باتیں ہو رہی تھیں، جس کی بنیاد پر انہیں قومی ٹیم سے اب باہر کرنا معمول بنتا جارہا تھا، مناسب ہوتا کہ وہ ڈومیسٹک یا پھر لیگ کرکٹ میں خود کو بہتر اور موثر ثابت کرتے۔
جانے کس کے مشورے پر انہوں نے پرفارمنس کے بجائے، جارحانہ انداز کے ساتھ بیان بازی کا سہارا لے کر ہواؤں کا رخ اپنی جانب موڑنے کی ناکام کوشش کی، محمد عامر کے بقول وہ ذہنی دباؤ سہہ رہے تھے، ٹیم مینجمنٹ کے ساتھ اب ان کا مزید کھیلنا بنتا نہیں۔
اس صورت حال میں پی سی بی کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان نے فاسٹ بولر سے فون پر رابطہ کیا، معاملے کی تصدیق کی اور دوسری جانب بورڈ نے بیان جاری کردیا کہ 28سالہ فاسٹ بولر کو مستقبل میں بین الاقوامی سلیکشن کے لیے قابل غور نہیں سمجھا جائے گا، یہ محمد عامر کی خواہش ہے اور بورڈ اس کا احترام کرتا ہے۔
بائیں ہاتھ کے تیز بولر کو مصباح الحق نے صرف نیوزی لینڈ کےلیے ہی ڈراپ نہیں کیا، وہ محمد عامر کو بنگلہ دیش اور زمبابوے کی ہوم سیریز سے بھی باہر کر چکے تھے البتہ یہی مصباح الحق تھے، جنہوں نے 2016ء میں بطور کپتان پانچ سال کی پابندی ختم ہونے پر انگلینڈ کے خلاف تمام چار ٹیسٹ میں فاسٹ بولر پر اعتماد کیا تھا۔
جہاں بائیں ہاتھ کے تیز بولر نے 4 ٹیسٹ میں 42.41 کی بھاری اوسط سے صرف 12 وکٹیں حاصل کی تھیں ، بات یہیں تک محدود نا تھی، مصباح الحق نے محمد عامر کو اس کارکردگی کے باوجود بجائے ڈراپ کرنے کے ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ میں بھی کھلایا، محمد عامر 17-2016ء کے دورہ آسڑیلیا میں تین ٹیسٹ میں محض پانچ وکٹ لے سکے البتہ وہ کھیلتے رہے اور ہر فارمیٹ کےلیے منتخب ہوتے رہے۔
پی سی بی سینٹرل کنٹریکٹ پر ان سے دستخط لیے جاتے رہے، تاہم 2019ء ورلڈ کپ کے بعد جب احسان مانی نے بطور چیئرمینپی سی بی مصباح الحق کا چیف سلیکٹر کی حیثیت سے انتخاب کیا، تو محمد عامر نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا، مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس نے تب سے اب تک محمد عامر کے اس فیصلے پر وقتا فوقتا تحفظات کا ہی اظہار کیا،یہ بات درست تھی کہ کتنی کرکٹ کھیلنی ہے، یہ خالصتا ایک کھلاڑی کا فیصلہ ہونا چاہیے۔
تاہم چونکہ پاکستان کرکٹ میں عموماً اس انداز کے فیصلے کھلاڑی سے زیادہ بورڈ یا پھر مینجمنٹ اپنا اختیار سمجھتے ہیں ، لہذا محمد عامر کے لیے بھی اس اقدام کے نتیجے میں تحفظات کا سامنے آنا کسی بھی طرح غیر معمولی بات نا تھی۔
دوسری جانب 18جون 2017ء کو اوول( لندن) میں آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی فائنل میں محمد عامر کی چھ اوورز میں 16 رنز کے بدلے روہت شرما، شیکھر دھون اور ورات کوہلی کی وکٹیں حاصل کرنے والوں کو یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پانچ سال کی پابندی 2016ء میں پوری کر کے واپس آنے والے محمد عامر نے 22 ٹیسٹ میں 68 ون ڈے کے 46 میچوں میں 56 اور ٹی ٹوئینٹی کے 32 میچوں میں 36 وکٹ کی پرفارمینس کو غیر معمولی نہیں کہا جا سکتا۔
2019ء ورلڈ کپ کے آٹھ میچوں میں 21.05 کی اوسط سے 17 وکٹ لینے والے محمد عامر نے گذشتہ چار سال میں 46 ون ڈے میں 14 میچ ایسے کھیلے جہاں وہ میچ میں وکٹ ہی نا حاصل کر سکے اور 30 میچ ایسے تھے، جہاں انھوں نے کوٹے کے دس اوورز بھی مکمل نہ کیے۔
اب محمد عامر کہتے ہیں کہ وہ سفید گیند میں اپنا کیرئیر جاری رکھنا چاہتے ہیں جہاں آخری آٹھ ٹی 20 میچوں میں وہ صرف چار وکٹیں موجودہ مینجمنٹ کیساتھ لینے میں کامیاب رہے ہیں ،ڈومیسٹک ٹی 20 کے سات میچوں میں وہ ناردن کے لئے صرف چھ وکٹ لے سکے، ان ہی کے ساتھی حارث رؤف آٹھ میچوں میں 18 وکٹوں کے حصول میں کامیاب رہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ نسیم شاہ، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، محمد حسنین ، موسی خان اور وہاب ریاض کی موجودگی میں سفید گیند کے دونوں فارمیٹ میں محمد عامر کی قومی ٹیم میں شمولیت اب کسی بھی طرح آسان نہیں نظر آتی۔
لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ بائیں ہاتھ کے تیز بولر کی کرکٹ ختم ہوگئی، لیکن اب بھی محمد عامر کو اعتدال اور تحمل کے ساتھ ملک سے کھیلنے کے لیے رفتار اور پرفارمینس پر توجہ مرکوز رکھنا چاہیے، بصورت دیگر فیصلہ تو پی سی بی سنا ہی دیا ہے۔