Time 14 جنوری ، 2021
پاکستان

چیف ایگزیکٹو براڈ شیٹ کے شہزاد اکبر اور شریف فیملی سے متعلق سنسنی خیز انکشافات

پاکستان سے29 ملین امریکی ڈالر ہرجانہ وصول کرنے والی برطانوی کمپنی براڈشیٹ نے عمران خان حکومت سے ایک اور معاہدہ کرنے کے لیے بات چیت کی، کمپنی کے نمائندے بیرسٹر ظفر علی نے وزیراعظم عمران خان اور مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر سے ملاقات کی۔

جیو نیوز سے خصوصی بات چیت میں براڈشیٹ کے چیف ایگزیکٹو کاوہ موسوی نے انکشاف کیا کہ شہزاد اکبر نے مجھے بتایا کہ ظفر علی اس سے ملنے آیا تھا اور میں نے کہا کہ آپ اس سے ملاقات پر رضامند کیوں ہوئے، شہزاد اکبر نے کہا کہ ظفر علی کا ان سے تعارف پاکستان کی ایک بہت زیادہ طاقتور شخصیت نے کرایا تھا اس لیے میں ان سے ملاقات سے انکار نہیں کر سکتا تھا لیکن پھر اس سے ملاقات کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ وہ اس قابل نہیں اس لیے میں نے عملی طور پر اسے باہر کا راستہ دکھایا۔

کاوہ موسوی کا کہنا تھا کیوں کہ عمران خان نئے نئے حکومت میں آئے تھے اور وہ لوگ نئے چینلز کی تلاش میں تھے اور خیال تھا کہ پچھلی حکومتیں بددیانت تھیں اور ہم ان معاملات کی مناسب تحقیقات چاہتے ہیں اور ہم آپ کو نیا کنٹریکٹ دیں گے تو میں نے کہا ٹھیک ہے، جب ظفر علی نے مجھ سے رابطہ کیا تو میں نے شہزاد اکبر سے ملاقات پر رضامندی ظاہر کی، میں نے شہزاد اکبر سے پوچھا اور اس نے تصدیق کی کہ وہ ان سے ملا تھا۔

انہوں نے بتایا میں نے ظفر علی سے کہا کہ اس پر اعتبار نہیں تھا تو اس سے ملے کیوں؟ انھوں نے کہا کہ اس کا تعارف مجھ سے پاکستان میں بہت طاقتور افراد نے کرایا تھا اور میں نے سوچا تھا کہ چلو مل لیتے ہیں، میں نے کہا پاکستان میں آپ معاملات ایسے چلاتے ہیں، انسانی حقوق کا ایک وکیل ایسا کیسے کر سکتا ہے کہ طاقتور لوگوں کے کہنے پر ملاقات کرے۔

ان کا کہنا تھا شہزاد اکبر نے کہا یہ پاکستان کے حقائق ہیں، میں نے کہا شہزاد مجھے پاکستان کے حقائق کے بارے میں مت سکھاؤ، اس بارے میں مجھے 18 برسوں کے تلخ تجربات ہیں۔

چیف ایگزیکٹو براڈ شیٹ کا کہنا تھا ایون فیلڈ کا معاملہ تو بہت بعد میں سامنے آیا، ہم دیگر اثاثوں کو دیکھ رہے تھے، شروع میں ہم نے ڈارک نیٹ کی تحقیقات کیں اور اس میں کچھ نشانیاں ملیں اور ہم نے اپنی مدد کے لیے ایف بی آئی کے سابق ایجنٹ ہائر کیے، ایون فیلڈ کے معاملات تو بعد میں سامنے آئے جب یہ ہاٹ سٹوری بنی۔

انہوں نے بتایا میں نے دیکھا ہے کہ شریف خاندان یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہے کہ لندن کی عدالت نے انہیں بری قرار دے دیا ہے، میرا پیغام ہے کہ ایسا نہیں ہوا، ہوا یہ ہے کہ ہم نے نواز شریف کے خلاف درخواست واپس لے لی تھی کیوں کہ ہمیں پہلے ہی اتنی رقم مل چکی تھی جس سے ججمنٹ کور ہو جاتی اور ہم نے اسے چھوڑ دیا۔

ان کا کہنا تھا یہ خیال کہ میں نے کمپنی تب خریدی جب یہ دیوالیہ تھی ایک اختراع ہے، یہ جھوٹ نہیں اختراع ہے، شہزاد اکبر یہ کہتے ہیں تو جھوٹ کہتے ہیں اور میں یہ کیمرے کے سامنے کہتا ہوں کہ وہ جھوٹ کہتے ہیں کہ میں نے براڈشیٹ کو خریدا، میں براڈشیٹ کو مسلسل فنڈ کرتا رہا ہوں تاکہ یہ دیوالیہ نہ ہو اور رجسٹر پر آئے تاکہ ایکشن کر سکے۔

کاوہ موسوی نے کہا کہ ہم سے معاہدہ مشرف حکومت نے کیا تھا اور اس لیے معاہدے کی خلاف ورزی بھی مشرف حکومت نے کی لیکن ریاست ذمے دار ہوتی ہے، اگر حکومتیں آتی جاتی ہیں تو اس مطلب یہ نہیں کہ احتساب بیورو ذمے دار نہیں۔

مزید خبریں :