03 جولائی ، 2021
غالب نے کہا تھا، کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا مکان ہے / جس میں کہ ایک بیضہ مور آسمان ہے۔ چیونٹی کے انڈے جیسی تنگ مکانی کا یہ شکوہ اس شخص نے لکھا جو قطرے میں دجلہ دیکھ سکتا تھا۔ 1826 میں بیٹھ کر 1857 کے ہنگامے کی پیش بینی پر قدرت رکھتا تھا۔ ہماری روایت ایسی ہی توانا ہے لیکن کیا کیجئے کہ ہمیں ایسے ناخداؤں سے واسطہ پڑا ہے جن کا ’لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر‘۔
ہمارے بڑوں میں پطرس، حسن عسکری اور جیلانی کامران جیسے صاحبانِ علم تھے کہ مشرق و مغرب کے تازہ ترین علمی رجحانات کی خبر رکھتے تھے۔ ہمارا یہ حال کہ کسی نئی کتاب کی خبر ادھر ادھر سے مل جائے تو جزاک اللّٰہ، کوئی مربوط بندوبست عنقا ہے۔
سابق امریکی وزیر دفاع جیمز میتیس کی کتابCall Sign CHAOS ستمبر 2019 میں شائع ہوئی تھی۔ کچھ ہفتے قبل دسترس میں آ سکی۔ جیمز میتیس افغان جنگ کے ابتدائی برسوں میں امریکی سپاہ کی قیادت کر رہے تھے۔ کتاب کے عنوان میں CHAOS کی تشریح دلچسپ ہے۔ ملازمت کے ابتدائی مراحل میں جیمز میتیس کے ساتھیوں نے ان کی افتاد طبع کی مناسبت سے انہیں Colonel Has Another Outstanding Suggestion کا خطاب دیا تھا لیکن ہماری دلچسپی تو کتاب کے ذیلی عنوانLearning to Lead سے ہونی چاہئے۔
جیمز میتیس برسوں پاکستانی قیادت سے براہ راست رابطے میں رہے۔ پاکستان کے بارے میں ان کے خیالات ہمارے لئے چشم کشا ہیں۔ کچھ کاٹ دار مشاہدات دیکھیے۔ ’}پاکستانی لوگوں کا دوہرا المیہ یہ ہے کہ ان کے پاس ایسے رہنما نہیں جو مستقبل کی فکر رکھیں۔ دوسری طرف پاکستان کے لوگ خود غرض اور بدعنوان تو ہیں ہی، غیرتعلیم یافتہ ہونے کے باعث اپنی مدد کرنے سے بھی قاصر ہیں… پاکستان کی سیاسی ثقافت میں اپنے پاؤں پر کلہاڑا مارنے کا شدید رجحان پایا جاتا ہے… پاکستانی اپنی قوم کی ترقی اور اجتماعی بہتری سے زیادہ ذاتی مفادات میں دلچسپی رکھتے ہیں… مجھے جتنے ملکوں سے واسطہ پڑا، پاکستان کو سب سے زیادہ خطرناک پایا کیونکہ تعلیم ناپید ہے، فکری انتہا پسندی عام ہے، مذہبی جذباتیت بہت زیادہ ہے، منطقی سوچ کی کمی ہے اور ایٹمی ہتھیار موجود ہیں…‘‘ جیمز میتیس نے متعدد ایسے واقعات لکھے ہیں جنہیں دہرانا محض قومی ندامت کا سامان ہو گا۔ صرف ایک مزید رائے دیکھ لیجئے۔ مصنف لکھتا ہے کہ’ ’پاکستان سمجھتا ہے کہ وہ دہشت گردی کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر سکتا ہے لیکن دہشت گردی وہ بیج ہے جو اگر جڑ پکڑ لے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے قابو میں نہیں رکھ سکتی‘‘۔
جیمز میتیس کے مشاہدات پر بہت سے برس گزر چکے۔ آئیے دیکھیں ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے صرف دو روز میں اپنی بصیرت کے کیا اعلیٰ نمونے پیش کئے۔ محترم نے بدھ کے روز قومی اسمبلی میں افغان مسئلے پر پالیسی بیان جاری کیا اور کوئی نوے منٹ پر محیط تقریر میں پاکستان کی بیس سالہ افغان پالیسی پر پانی پھیر دیا۔ تقویم کے معاملات میں بار بار ٹھوکر کھائی۔ خیر بحرالکاہل اور اوقیانوس جیسے چھوٹے چھوٹے سمندروں کو خاطر میں لائے بغیر جرمنی اور جاپان کو ہمسایہ ملک قرار دینے والی ہستی کے لئے دو چار برس اوپر نیچے کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ اہم بات یہ کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں پاکستان نے جو اقدامات کئے، انہیں سرے سے غلط قرار دیا۔ دہشت گردی کی کھلے عام عذر خواہی کرتے ہوئے کہا کہ ’’جن کے بیوی بچے مرتے تھے وہ پاکستانیوں پر حملہ کرتے تھے‘‘۔
کیا عمران خان واقعی سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں گرفتار یا مارے جانے والے القاعدہ رہنما ابوزبیدہ (فیصل آباد)، رمزی بن الشیبہ (کراچی)، خالد شیخ محمد (راولپنڈی)، احمد خلفان غیلانی (گجرات)، ابو فراج اللبی (شمالی علاقہ جات)، ابو للیث اللبی (شمالی وزیرستان)، مصطفٰی ابو یزید (فاٹا) اور اسامہ بن لادن (ایبٹ آباد) سیاحت کی غرض سے پاکستان میں مقیم تھے۔ کیا ڈرون حملوں میں مارے جانے والے تحریک طالبان پاکستان کے رہنما عبداللہ محسود (2007)، بیت اللہ محسود (2009)، حکیم اللہ محسود (2013) اور ملا اختر منصور (2016) پاکستان کے ستر ہزار شہریوں اور فوجی جوانوں کو شہید کرنے میں حق بجانب تھے؟کیا لاہور، ملتان اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفاتر پر خود کش حملے جائز تھے۔ جی ایچ کیو سمیت حساس فوجی تنصیبات، عبادت گاہوں، اسکولوں، ہوٹلوں اور کاروباری مراکز میں دھماکے کرنے والے پاکستان کے دوست تھے؟اس تقریر میں عمران خان نے دہشت گردی کی جھوٹے منہ بھی مذمت نہیں کی یعنی پاکستان کے سرکاری موقف پر آویزاں مہین پردے کو چاک کر دیا۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ عمران خان کا یہ موقف بین الاقوامی طاقتوں سے مایوسی کا غماز ہے یا وہ اندرون ملک اپنے حقیقی حلقہ انتخاب کو کوئی پیغام دے رہے تھے۔
معاشی مشکلات اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار ملک کے سربراہ نے اس پالیسی بیان سے اگلے ہی روز ہمسایہ ملک میں مقتدر سیاسی جماعت کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر یک جماعتی آمریت کو مغربی جمہوریت سے بہتر قرار دیا۔ گویا وہ جس دستوری بندوبست کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ تک پہنچے ہیں، اسے ہی مسترد کر دیا۔ کسی دوست ملک کے لئے خیرسگالی کے کلمات مباح ہیں لیکن اس کے لئے خود انہدامی ضروری نہیں۔ احتساب اور میرٹ عمران خان کی پسندیدہ اصطلاحات ہیں۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ چین کی موجودہ معاشی ترقی کے بانی ڈینگ شاؤ پنگ ماؤزے تنگ کے انتقال کے وقت کہاں تھے؟ لین بیاؤ کا احتساب کیسے ہوا تھا؟ عظیم جست (1958 تا 1962) کے قحط میں کتنے کروڑ افراد مرے تھے؟ ثقافتی انقلاب کے نام پر اقتدار کی کشمکش دو کروڑ افراد کو نگل گئی تھی۔
عمران خان نے قائد اعظم کا نام تو لیا لیکن ان کے دل میں ایوب خانی آمریت مچلتی ہے۔ پاکستان وفاقی جمہوری نمونے پر قائم ہوا تھا اور وفاقی جمہوریت ہی ہماری ترقی اور استحکام کی ضمانت دے سکتی ہے۔ خارجہ پالیسی ہو یا آئینی معاملات، وزیر اعظم کی فی البدیہ طلاقت لسانی سے قوم کا راستہ کھوٹا ہوتا ہے۔