23 ستمبر ، 2021
پاکستان کی 2 کروڑ سے زائد آبادی ذیابیطس (شوگر) کے مرض میں مبتلا ہے۔
پاکستان میں بڑی عمر کے مرد اور خواتین کے ساتھ اب نوجوان اور بچے بھی اس مرض کا شکار ہو رہے ہیں جس کے بعد تمام عمر انہیں اپنی زندگی کی حفاظت کے لیے دواؤں کا استعمال کرنا پڑتا ہے ۔
3 سال میں ذیابیطس کنٹرول کرنے والی دواؤں کی قیمت میں تقریباً 200 فیصد اضافہ ہوا۔
شوگر کا مرض لاحق ہونے کے بعد تا حیات اس مرض کو کنٹرول کرنے کے لیے دواؤں کو استعمال کرنے والے مریض جو پہلے مہینے بھر کی دوائیں ایک ساتھ خریدتے تھے اب قیمتوں میں اضافے کے بعد زیادہ تر مریض چند دن کی دوا ہی خرید پاتے ہیں۔
محمد اشفاق بھی گزشتہ 18 سال سے ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ذیابیطس نے انہیں ہائی بلڈ پریشر کا مریض بھی بنا دیا ہے۔
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے محمد اشفاق کا کہنا تھا کہ اب وہ ذیابیطس اور بلڈ پریشر دونوں امراض کی دوائیاں باقاعدگی سے لیتے ہیں لیکن ہر چند دن بعد دوائیوں کی قیمت بڑھنے سے پریشان ہیں۔
محمد اشفاق نے بتایا کہ وہ 18 سال سے مریض ہیں اور اسٹور پر ہیمولین خریدنے آئے ہیں جس کی قیمت اب 1050 روپے ہے، پہلے یہ 640 کی مل جاتی تھی، اب ان کے لیے مشکل ہو رہا ہے کہ اپنی میڈیسن استعمال کریں یا گھر کا خرچ چلائیں۔
ان کے مطابق انھیں صرف انسولین ہی نہیں لگتی اور بھی بہت سی دوائیاں ساتھ ہوتی ہیں۔
ڈویژنل صدر پاکستان کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن محمد اختر بٹ کا کہنا ہے کہ 2 سال پہلے ایسے قیمتیں اوپر گئی ہیں جیسے اندھیر نگری چوپٹ راج، سابقہ ادوار میں بھی قیمتیں بڑھیں لیکن ایک طریقہ ہوتا ہے، پاکستان کی تاریخ کے 70 ، 72 سالہ ریکارڈ میں نہیں ہے کہ جس انداز سے اس طرح دوائیوں کی قیمتیں گزشتہ 3 سال میں بڑھی ہیں۔
2018ء سے اب تک صرف شوگر کے مریضوں کے لیے تیار کردہ مختلف کمپنوں کی دوائیوں میں 200 روپے سے 1800 روپے تک کا اضافہ ہوا ہے اور اس سال بجٹ میں دوائیوں کی خریداری پر خریدار کو ملنے والی رعایت بھی ختم کر دی گئی ہے۔
شوگر کے مریضوں کی دوائیوں میں گزشتہ 3 سالوں میں اضافے سے ایک طرف مریض پریشان ہیں تو دوسری طرف اب سرکاری اسپتالوں میں بھی شوگر کی دوائیاں میسر نہیں ہیں۔