پاکستان
Time 03 اکتوبر ، 2021

وزیرخزانہ شوکت ترین کا آف شورکمپنیوں کے حوالے سے بیان سامنے آگیا

وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین کا آف شور کمپنیوں کے حوالے سے بیان سامنے آیا ہے۔

شوکت ترین نے  ایک بیان میں کہا ہےکہ کمپنیاں تب کھلیں جب فواد ملک، یو اے ای کی ’طارق بن لادن‘ کمپنی کے لیےکام کرتے تھے،  انہوں نے سلک بینک میں سرمایہ کاری کے لیے باقاعدہ اجازت لی تھی۔

شوکت ترین کا کہنا ہےکہ کمپنیوں کا کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں کھلا اور نہ ہی کوئی ٹرانزیکشن ہوئی،  بعد میں جب خیال بدل گیا تو پھر کمپنیاں 2014 اور 2015 کے درمیان بند ہوگئی تھیں۔

ان کا مزید کہناتھا کہ طارق بن لادن بڑے سعودی انویسٹر ہیں اور طارق فواد ملک یو اے ای کی طارق بن لادن کی کمپنی میں کام کرتے تھے۔

اس حوالے سے براڈ شیٹ کیس کے اہم کردار طارق فواد ملک کا کہنا ہےکہ 2014 میں وہ مشرق وسطیٰ کی ایک کمپنی سے منسلک تھے جو شوکت ترین کے بینک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی تھی، اس سرمایہ کاری کی اجازت کے لیے ان کی کمپنی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے مذاکرات کیے تھے۔ 

واضح رہے کہ طارق فواد ملک ان سوالات کا جواب دے رہے تھے کہ ایک ریکارڈ کے مطابق وہ چار  آف شور کمپنیوں، ٹرائی پرنا، ہمرہ، مونین اور سی فیکس کا انتظام سنبھالتے ہیں، جو مبینہ طور پر شوکت ترین اور ان کے تین اہلِ خانہ کے نام پر ہیں،  یہ کمپنیاں سی شیلز ، آئل آف مین میں 2014 میں رجسٹرڈ ہوئیں۔

  طارق فواد ملک سے پوچھا گیا تھا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ کمپنیاں کیا کرتی ہیں؟ اور  آپ کا شوکت ترین اور ان کے اہل خانہ سے کیا رشتہ ہے؟ جس پر طارق فواد ملک نے 16ستمبر کو لکھے خط کا جواب دیا تھا۔ 

خیال رہے کہ نامور شخصیات کے مالی امور پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی تحقیقات ’پنڈورا پیپرز‘ مکمل ہو گئی ہیں۔

پنڈورا پیپرز ایک کروڑ 19 لاکھ فائلوں پر مشتمل ہیں اور تحقیقات میں دنیا کے 117 ملکوں کے 150 میڈيا اداروں کے 600 سے زائد رپورٹرز نے حصہ لیا ہے۔

صحافتی دنیا کی سب سے بڑی تحقیقات میں پاکستان سے دی نیوز کے عمر چیمہ اور فخر درانی شریک ہوئے۔

نامور شخصیات کے مالی امور کی تحقیقات کا کام دو سال میں مکمل ہوا اور تحقیقات کی تفصیلات چند گھنٹوں بعد سامنے آئیں گی،نامور شخصیات کے مالی امور پر مشتمل پنڈورا پیپرز میں پاناما پیپرز سے زیادہ پاکستانیوں کے نام شامل ہیں۔

خیال رہے کہ 2016 میں جاری ہونے والے پاناما پیپرز میں 444 پاکستانیوں کے نام شامل تھے۔ 

مزید خبریں :