بلاگ
Time 15 نومبر ، 2021

روتے رہنا ہے یا آگے بڑھنا ہے ، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں۔۔۔

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

ہماری تاریخ بھی عجیب ہے انتخابات قومی ہوں یا کسی ایسوسی ایشن کے ہمیشہ سے اس کی شفافیت پر انگلی اٹھتی رہی ہے یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے ۔ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ آزاد کشمیر الیکشن کے نتائج نے بھی سیاسی جماعتوں کو ماضی میں دھکیل دیا ووٹوں اور نشستوں کی بات کی جانے لگی ۔ نیا رولا شروع ہوگیا ہمیں ووٹ اتنے ملے نشستیں کم ہیں ۔ ماضی میں بھی اس کی باز گشت سنی گئی ، ہارنے والے کہتے ہیں ووٹ ہمارے زیادہ اور نشستیں ہماری کم ۔

اب ذرا ماضی میں چلتے ہیں ملک کے پہلے عام انتخابات جو بالغ رائے دہی کے بنیاد پر کرائے گئے۔ 1970 کے انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدارانہ کہا اور مانا جاتا ہے مگر جب اقتدار حوالے کرنے کی بات آئی تو اس وقت کی دو جماعتوں کی کھینچا تانی کی نظر ہوگئے دو بڑی جماعتوں نے میں نہ مانوں کی رٹ لگائی مگر کسی نے اسمبلی کا اجلاس ہونے نہ دیا ۔ جب ہماری روش یہ ہو کہ اکثریتی جماعت کو اقتدار حوالے کرنےکے بجائے اس میں پس و پیش سے کام لیا گیا ۔بالآخر پاکستان میں اکثریتی جماعت کو حکومت بنانے کی دعوت دی گئی ذوالفقار علی بھٹو پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر بن گئے ۔ نئے پاکستان کی داغ بیل ڈالی گئی ۔

ملک میں عام انتخابات متنازع کیوں بنتے ہیں یا بنائے جاتے ہیں ؟

اب تک ملک میں ہونے عام انتخابات میں شکست کھانے والی جماعت نے نتائج تسلیم نہیں کیے اور یہ روایت دیکھنے کو نہیں ملی کہ شکست کھانے والی جماعت نے کبھی خندہ پیشانی سے نتائج کو تسلیم کیا ہو ۔ ایل ایف او کے تحت بالغ رائے دہی پر انتخابات کرائے گئے، دوسرے انتخابات ایل ایف او کے ذریعے ،جو مشرف کے دور میں ہوا، ترامیم کے ذریعے ایوان کی نشستوں میں اضافہ کیا گیا اورخواتین کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ نمایندگی دی گئی ۔ اس پر کسی جماعت نے چوں تک نہیں کی، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان سیاسی جماعتوں کو وارا کھاتی تھی ۔

ماضی کے نتائج کا جائزہ جس میں ووٹ زیادہ اور نشستیں کم ملنے پر کیا دلیلیں دی گئیں

1993 کے انتخابات میں دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان وہی بات دہرائی گئی ، پاکستان پیپلز پارٹی نے 75 لاکھ ووٹ لیے اور 86نشستیں حاصل کیں جبکہ ان کے مد مقابل جماعت مسلم لیگ ن نے 79 لاکھ ووٹ لیے اور ان کے حصے میں 73 نشستیں آئیں ۔ دونوں جماعتوں میں چار لاکھ ووٹوں کا فرق تھا لیکن ن لیگ کو 13 نشستیں کم ملیں ۔

2002 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ق نے 75 لاکھ ووٹ لیے جبکہ ان کے حصے میں 118 نشستیں آئیں ، پیپلز پارٹی نے 76 لاکھ ووٹ لیے اور ان کو 81 نشستیں ملیں۔ یعنی صرف ایک لاکھ ووٹوں نے 37 نشستوں کا فرق ڈال دیا ۔ ان نشستوں میں خواتین اور اقلیت کی مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں جو جنرل نشستوں میں کامیابی کے بنا پر ایک تناسب سے دی جاتی ہیں ۔

2008 میں مسلم لیگ ن نے براہ راست 67 عام نشستوں پر 67 لاکھ ووٹ لیے۔ ان کے مدمقابل مسلم لیگ ق نے 80 لاکھ ووٹ لیے ان کے حصے میں 41 عام نشستیں آئیں۔ یوں دونوں جماعتوں میں 13 لاکھ اور 26 نشستوں کا فرق نمایاں دیکھا گیا ۔ ان جماعتوں کے حصے میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے بعد دونوں جماعتوں میں 39 نشستوں کے فرق کے ساتھ ن لیگ نمایاں رہی ۔

2013 میں بھی یہ ہی صورت حال تھی ۔ پیپلز پارٹی نے 69 لاکھ ووٹ لیے جبکہ ان کی نشستوں کی تعداد 31 تھی۔دوسری جانب تحریک انصاف نے 76 لاکھ ووٹ لیے لیکن ان کے حصے میں 26 نشستیں آئیں۔

جب بھی انتخابات کرائے گئے ہیں جو جیتا یا ہارا سب سے پہلے ان کی جانب سے اس پر سوال یا انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ کیا کبھی ایسے انتخابات کرائے جائیں گے جس سے کم از کم یہ تاثر ختم ہو کہ سو فیصد نہ سہی انیس بیس کے فرق سے ان انتخابات کو آزادانہ اور شفاف کہا جا سکے ۔

پاکستان میں شاید ہی کوئی انتخابات شفاف ہوئے ہوں ۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ 1970 کے عام انتخابات جو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کرائے گئے وہ پہلے عام انتخابات تھے جو ایک فوجی ڈکٹیٹر یحییٰ خان نے ایل ایف او کے تحت کرائے ۔

سوال یہ ہے کہ کیا اسمبلیاں اپنا کردار احسن طریقے انجام دے پائی ہیں؟اسمبلیاں قانون سازی میں کس حد تک کامیاب رہی ہیں؟کیا ہم نے کبھی شعوری کوشش کی ہے کہ ملک کے اصل مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے ؟

ماضی میں یا پھر حال میں ایسا کوئی کرشماتی کمال ادا کرنے میں ابھی تک کامیاب نہ ہو سکی ہے اور نہ ہی کسی نے اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی زحمت کی۔ اس کی واحد وجہ ذاتی انا ، مصلحت پسندی ، حقائق سے روگردانی کرنا جیسے ہمارا قومی تشخص بن گیا ہے۔۔ایسا نظر آتا ہے کہ جو بھی حکمران بنتا ہے وہ اپنے سے آگے دیکھنے یا سوچنے سے قاصر رہتا ہے یا بنتا ہے ۔۔ حکمران نے جب بھی کسی چیز کو کرنے کی ٹھانی ہے اس میں نہ تو کبھی پس و پیش سے کام لیا ہے نہ ہی اتفاق رائے پیدا کرنے کا ماحول بنایا گیا ہے ۔ جس ایوان میں اتفاق رائے ناپید ہو اس میں قانون سازی کے بجائے آرڈیننس کے ذریعہ کام چلانے کو ترجیح دی جاتی ہے اس کو یہ کہا جائے کہ ہم ایڈ ہاک ازم اور شارٹ کٹ کے عادی بن چکے ہیں ۔ کیونکہ ہمارے نمایندہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے مفادات کو کوئی زک پہنچے یا لگے یہاں پر وہ جن کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آتا ہے اپنے آپ کو ان سے الگ کردیتا ہے اور مصلحت پسندی کا شکار بن جاتا ہے۔

ملک میں ہر پانچ سال بعد عام انتخابات کرائے جاتے ہیں جو کام ترجیحی بنیادوں پر پہلے کرنے چاہییں اس کو ہم دانستہ طور پر جلد بازی میں کرنے کے عادی بن گئے ہیں جس کا خمیازہ کسی اور کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ ماضی کے انتخابات سب کے سامنے ہیں جن سے کوئی خوش نہیں وہ بڑی جماعت ہو یا چھوٹی جماعت ہو چلو ایک بات پر اتفاق ہے کہ ان انتخابات میں دھاندلی ہوئی یا نتائج تبدیل کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اتفاق رائے نظر نہیں آیا۔ مشرف دور میں ایل ایف او کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اراکین کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ 2002 سے اب تک دیکھیں تو اس میں ان ممبران نے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا ۔

ملک میں آبادی کے تناسب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اراکین کی تعداد بڑھائی جاتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ نشستوں کی تعداد بڑھانے کے بجائے ان حلقوں میں ووٹرز کی تعداد بڑھانی چاہیے ۔ ممبران کی فوج بڑھانے کے بجائے اس کو لاک کیا جائے اور مقابلے کی فضا ہموار کی جائے۔

قانون کون بنائے گا ، پارلیمنٹ یا کوئی اور ؟

ہم جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ قانون نہیں بناتی بلکہ اس بنائے گئے قانون کی تشریح کرتی ہے ، اس طرح کرکٹ کے کھیل میں جو رولز بنائے جاتے ہیں وہ بھی کرکٹ کی ٹیمیں خود نہیں بناتی ہیں وہ قوانین ایک ایسی باڈی بناتی ہے جو اس کھیل کا حصہ نہیں ہوتی بلکہ ٹیمیں ان قوانین کے کھیل کھیلتی ہیں۔ کیا کسی اسکول میں طالب علموں نے خود اپنا پرچہ بنا کر کبھی امتحان دیا ہے اب تک تو ایسا نہیں ہوا ہے اور نہ یہ ہونا چاہیے ۔ ماضی قریب میں ہم نے دیکھا کہ حکومت کی جانب سے ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے ایک ٹاسک فورس بنائی گئی جس نے اپنی تجاویز حکومت کو پیش کردیں یہ اصلاحات منظوری کے بعد ان پر عمل درآمد کے لیے بیوروکریسی کے حوالے کیے گئے، ان اصلاحات میں بیوروکریسی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ۔ اب اپنے قانون سازوں کا جائزہ لیں گے ۔ اپنے انتخاب کے لیے یہ خود ہی اپنے رولز آف گیم بناتے ہیں بعد میں الیکشن کمیشن کے حوالے کیے جاتے ہیں کہ اس پر الیکشن کرائیں، اس کا مطلب اس ادارے کا کام ایک پوسٹ مین کے علاوہ کچھ نہیں۔۔ ہم خوابوں کی دنیا میں جینا چاہتے ہیں۔ اصلاحات کرنے کے لیے پہلے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔

ہماری سیاسی اور پارلیمانی تاریخ موقع پرستی اور بدنیتی سے بھری پڑی ہے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی دوڑ میں آگے آگے رہتے ہیں، بجائے ادھرادھر دیکھنے اور اشارے کا انتظار کیے بغیر اپنے اندر اصول پرستی کی سیاست کے لیے کام کرنا چاہیے اب وصولی کی سیاست کو خیرباد کہنا ہوگا ۔

ملک کے نظام کو لاحق مرض کی تشخیص ہوچکی ہے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہمت اور استقامت کی ضرورت ہے ۔ انتخابی اصلاحات کرنا کوئی مشکل کام نہیں اس میں ایک چیز کو مد نظر رکھ کر کرنا ہوگا کہ اس میں کسی فرد یا جماعت کے بجائے ملک کا تابندہ مستقبل نظر آئے ۔

انتخابی سیاست کو آگے بڑھانے کے لیے حقیقت پسندانہ اصلاحات کی ضرورت ہے

نمبر1)  ایسے امیدواروں پر پابندی عائد کی جائے جو کسی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوا ہو یا شکست کھائی ہو۔ اس پر ایوان کے دروازے بند کیے جائیں ، البتہ سینیٹر بننے کا اہل ہو(ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ان کے مفادات جو اسمبلیوں سے وابستہ ہیں اس کی حوصلہ شکنی کے لیے ضروری اور لازمی ہے ) ہم نے دیکھا ہے کہ ایوان میں ایسے بھی لوگ بھی منتخب ہوتے آئے ہیں جو کئی بار ہم نے ایوان میں دیکھے ہیں مگر ان کی کارکردگی سب پر عیاں ہے ۔

نمبر2) کسی بھی امیدوار پر ایک سے زائد حلقوں میں الیکشن لڑنے کی ممانعت اور حوصلہ شکنی کی جائے جو مقبولیت کے نام پر کئی حلقوں میں کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہیں اور جیک پاٹ لگنے کے انتظار میں ہوتے ہیں ۔ ایک انتخابی حلقے کے الیکشن پر انتخابی مہم کے دوران کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں ۔ اس پابندی سے ایک خطیر رقم بچائی جا سکے گی ۔

نمبر3) اوپر ہم ذکر چکے ہیں جو تین بار منتخب ہو چکا ہو یا ہارتا رہا ہواس کو الیکشن کے لیے نا اہل قرار دیا جائے۔ اس طرح موسمی پرندے یا ممبران کسی بھی جماعت میں ہوں ان پر یہ پابندی عائد کی جائے کہ وہ عام انتخابات سے دو سال پہلے اگر پارٹی چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ اگلے انتخابات کے اہل تصور کیا جائے گا ۔

نمبر4) عام انتخابات میں امیدواروں کے بجائے سیاسی جماعتوں کے درمیان الیکشن کرائے جائیں ، ان کے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے ایوان کی نشستیں الاٹ کی جائیں۔ اس طرح تمام ڈالے گئے ووٹوں کا شمار ہوجائے گا ۔قومی اسمبلی کے حلقے جو صوبوں کے لیے مختص ہیں اس کے تناسب سے حاصل ووٹوں پر یہ نشستیں الاٹ کی جائیں۔ تمام جماعتوں سے اپنے امیدواروں کی ترجیحی فہرست لی جائے، جیساکہ خواتین کی نشستوں پر کیا جاتا ہے ۔ اس عمل سے فرد نہیں جماعت ذمہ دار بنے گی اور پارلیمنٹ کی کارکردگی میں اضافہ بھی ہوگا ۔ الیکشن نتائج تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ اور گھبراہٹ نہیں ہوگی اور رونے دھونے کی سیاست کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی ۔

نمبر5) صدر پاکستان کا انتخاب تین سال کے لیے کیا جائے اور ہر تین سال بعدسینیٹ الیکشن کے ساتھ صدر بھی منتخب کیا جائے۔ ہم نے دیکھا ہے سپریم کورٹ بار کا صدر ہر سال مختلف صوبوں سے منتخب کرایا جاتا ہے یہی طریقہ کار ملک کے صدر کے لیے بھی استعمال کیا جائے۔ اب تک ہم نے دیکھا ہے کہ ملک کا صدر دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ منتخب کرایا جاتا ہے وہ بھی کسی بڑے شہر سے ۔ دیگر صوبوں سے صدر کے انتخاب سے دیگر صوبوں میں احساس محرومی کا خاتمہ ہوگا (ایسا نہیں ہے کہ دیگر صوبوں سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے یا پڑھے لکھے افراد کا قحط ہے بلکہ اس سے فیڈریشن مزید مضبوط ہوگی )

ہمیں اپنی انا کو دفن کرنا ہوگا ملک کے مفاد میں وہی کام کرنا چاہیے جو اس کی طاقت میں اضافہ کرے ۔ ہم چھٹی ایٹمی قوت ہیں، ، ذرا غور کریں ہم نے جو کردار ادا کرنا تھا وہ کیا ؟ کیا ہمیں جو کام یاذمہ داری دی گئی اسے انصاف اور ایمانداری سے ادا کیا ؟ اور کیا جس شخص کوذمہ داری دی گئی وہ اس کا اہل تھا اور اس پر کتنا پورا اترتا تھا ۔اب اس کی تلافی کا وقت آگیا ہے بحیثیت قوم ملی جذبے کے ساتھ کچھ لو کچھ دو کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہوگا ورنہ ہم روتے ہی رہیں گے اور ایک دوسرے کو کوسنے دیتے رہیں گے ۔ اپنے اندر جھانک کر دیکھیں کہیں یہ جواب تو نہیں مل رہا کہ میں ایسا کیوں ہوں !


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔