15 نومبر ، 2021
سچی بات تو یہ ہے کہ بطور ’’مسلمان‘‘ اور پاکستانی ہم اکثر برے ہی ہیں لیکن اس معاشرہ میں بہت برے، بہت ہی برے بلکہ بدترین کون ہیں؟ میں نے کچھ لوگوں کو ’’شناخت‘‘ کیا اور آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں جو ہم جیسے لوگوں سے بھی کہیں بدتر ہیں اور وہ کون ہیں ؟
اللہ، قرآن، رسول ؐکا نام لیکر ذاتی مقاصد کیلئے کام کرنے والے ....اللہ انہیں ہدایت دے اور ان کے شر سے بچائے ۔
ہر وہ سپاہی جو ملک سے غداری کرے چاہے پولیس اور کسٹم کا ہی ہو ۔
ہر وہ استاد جو بچوں کو پڑھانے میں خیانت کرے، جبری ٹیوشنز پڑھائے، پرچے لیک اور امتحانی مراکز کے نیلام میں ملوث ہو اور نقل کرانے کیلئے نقدی وصول کرکے بدترین حرام سے اپنی اولادوں کی پرورش کرے ۔
منصف، جو انصاف بیچ دے یہاں تک کہ اپنے بچوں کی شادیوں پر سلامیوں کے نام پر حرامیوں سے حرام وصول کرے اور اسے ’’قانونی‘‘ بھی سمجھے۔
ہر وہ قائد جو جان بوجھ کر ہم وطنوں کو دھوکہ دے ۔
ہر وہ ’’دانش ور‘‘ سویلین سرکاری افسر جو ’’پارکنگ لاٹ‘‘ میں رشوت وصول کرکے بھی نہ جانتا ہو کہ اس کی ویڈیو بھی تیار ہے ۔
وہ انجینئر جو کسی بھی پراجیکٹ کی بنیادوں میں ’’حرام‘‘ رکھ دے۔
ہر وہ قلمکار جو قلم نامی ماں کو بالواسطہ، بلاواسطہ کرائے پر چلا کر بھی لمبے لمبے بھاشن دے ۔
ہر وہ شخص جو حرمت رسول ؐ پر جان دینے کو تو تیار ہو لیکن ان کی تعلیمات، احکامات و ہدایات سے واقف ہی نہ ہو ۔
’’کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں ؟‘‘
ہر وہ گھرانہ گنہگار ہے جس میں بجلی، گیس یا پانی ضائع ہوتا ہو۔
جہاں رہتا ہوں گیٹڈ کمیونٹی ہے ۔پڑھے لکھے متمول لوگ ہیں لیکن تقریباً ہر گھر کے باہر گاڑی دھونے کے بعد ڈرائیورز پانی بند کئے بغیر پائپ پھینک کر گاڑی خشک کر رہا ہوتا ہے اور بے حس مالکان اس قابل بھی نہیں کہ ڈرائیور کی سرزنش کر سکیں۔
ٹین ایجرز موٹر سائیکلیں بھگاتے پھرتے ہیں اور اکثر اوقات ایک دو چھوٹے بہن بھائی بھی ساتھ بٹھائے ہوتے ہیں۔عرض کرنے کا مقصد یہ کہ اشرافیہ اور عوام میں ہر قسم کا منفی مقابلہ جاری ہے اور یہ سب کچھ دیکھ کر یہ فرمان یاد آتا ہے کہ جیسی قوم ہو ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں جسے مقامی انداز میں یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ’’جیسے منہ ویسی چپیڑیں ‘‘۔
حکمرانوں کے لّتے لینا اور ان کے کرتوتوں میں کیڑے ڈالنا مجھے بھی بہت مرغوب ہے لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی بڑھنے لگا ہے کہ ہم عوام خود بھی کسی سے کم نہیں اور ہر غیور و باشعور ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے ‘‘ کی چلتی پھرتی تصویر ہے۔ آج کل آبادی بڑھاؤ سیزن ہے یعنی شادیوں کا موسم، جس پارک میں واک کیلئے جاتا ہوں وہاں ہر روز شادی بیاہ کیلئے ماڈرن قسم کے ٹینٹ لگے ہوتے ہیں ۔
پارک سے باہر برآمدے میں جتنے غلیظ طریقے سے کھانے اور برتن تیار ہو رہے ہوتے ہیں کراہت آتی ہے اور اپنا ہی ایجاد کردہ یہ ’’محاورہ‘‘ یاد آتا ہے کہ ’’جتنا غلیظ ہے اتنا ہی لذیذ ہے ‘‘ گندے کپڑوں میں ملبوس بندے گندے کپڑوں سے ہی برتن سکھانے اور چمکانے میں مصروف ہوتے ہیں ۔
ایسی نمائش، اسراف اور چھچھور پن ہماری عوامی تقریبات کا خاصا ہے۔ کھانے کا زیاں بلکہ بے حرمتی دیکھ کر دکھ ہوتا ہے اور یقین نہیں آتا کہ یہ وہی معاشرہ ہے جو تین شفٹوں میں مہنگائی کے ماتم میں مصروف ہے۔ کھانے کے بعد کے برتن دیکھ کر اپنی ازلی ابدی بھوک پر رونا آتا ہے کیونکہ ہر پلیٹ میں کھانے کا ڈھیر بچا ہوتا ہے یعنی سوچے سمجھے بغیر پلیٹس بھر لیتے ہیں اور جتنا کھاتے ہیں، اس سے زیادہ پلیٹوں میں چھوڑ جاتے ہیں۔
دوسری طرف ذرا ان نعروں پر غور کریں ۔
’’جب تک سورج چاند رہے گا ۔لنکن تیرا نام رہے گا‘‘
’’زندہ ہے کینیڈی زندہ ہے ‘‘
’’قدم بڑھاؤ ڈونلڈ ٹرمپ! ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘
’’ساڈا کلنٹن شیر اے۔ باقی ہیر پھیر اے‘‘
’’نکسن دے نعرے وجن گے‘‘
’’جارج واشنگٹن ثانی ....جوبائیڈن‘‘
سو ضرورت اس بات کی ہے کہ زبانی کلامی حکمرانوں کے گریبان پھاڑنے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لیا جائے ورنہ آئندہ پون صدی بھی یونہی گزر جائے گی اور وہ نسلیں بھی گروی پڑ جائیں گی جو ابھی رحم مادر سے بھی بہت دور ہیں ۔
نجانے گود بھی اس کا نصیب ہے کہ نہیں
ہمک رہا ہے جو بچہ کسی تصور میں
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔