18 جنوری ، 2022
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل کی درخواست پر جبری گمشدگی کیسز کی موثر تفتیش کے لیے3 ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے 14 فروری تک رپورٹ طلب کر لی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی و بلاگر مدثر نارو سمیت دیگر مسنگ پرسنز کیسز کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف کے مترادف ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے اس متعلق واضح پیغام آنا چاہیے، ایسے کیسز میں مشکل یہ ہوتی ہے کہ ریاست خود ملوث ہوتوتفتیش کون کرے گا؟
انہوں نے کہا کہ ایک صحافی کو یونیفارم میں ملبوس لوگوں نے اٹھایا جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے مگر تفتیش میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
اٹارنی جنرل نے کہا گزشتہ ایک دہائی کے دوران کافی تعداد میں لوگ غائب ہوئے، اکثر نے جہاد میں شرکت کے لیے ملک کو چھوڑا، ایسا بھی ہواکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سپاہیوں کے سرچوراہوں پرلٹکائے گئے، کسی بھی حکومت کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو زبردستی اٹھایا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا وفاقی حکومت نے پھر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ ایک چیف ایگزیکٹو نے کتاب میں لکھا کہ یہ پالیسی تھی۔
اٹارنی جنرل نے کہا وہ غاصب تھے، انہیں منتخب چیف ایگزیکٹوز کے ساتھ نہ ملایا جائے، وہ تو مکا بھی دکھا رہے تھے، اب مفرور اور اشتہاری ہیں، نوازشریف، یوسف رضا گیلانی اورعمران خان سمیت کسی کی یہ پالیسی نہیں تھی کہ لوگوں کو غائب کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگرکسی کی نشاندہی ہوجائے اور چیف ایگزیکٹو ایکشن نہ لیں تو وہ جوابدہ ہیں، اگر ایک دفعہ کسی کو سزا ہوجائے تو یہ اچھا میسج جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا ایک صحافی کو یونیفارم والے اٹھا کر لے گئے جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے مگر تفتیش میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی، ایس ای سی پی افسر کو اٹھایا گیا جس نے واپس آ کر کہا کہ وہ شمالی علاقہ جات گیا تھا، آپ بتائیں کہ اس معاملے میں کیسے آگے بڑھا جائے؟
اٹارنی جنرل نے کہا جس کیس میں سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب ہے اس کیس سے شروع کر لیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا آئین کے مطابق آرمڈ فورسزبھی وفاقی حکومت کی منظوری کے بغیرکچھ نہیں کرسکتیں، کسی کو یہاں سمن کرنا مسئلے کا حل نہیں،آپ اس کورٹ کو حل بتائیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہاں سپریم کورٹ ہے، ہائیکورٹ ہے، وزیراعظم سیکرٹریٹ اورانٹیلی جنس ایجنسی کے دفاتر ہیں، اگروفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی جگہوں کی کیا صورتحال ہوگی؟ ایسے واقعات سے نان اسٹیٹ ایکٹرزکی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ بھی ایکٹو ہو جاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت رپورٹ نہیں ایکشن چاہتی ہے، یہ کورٹ کسی کو سمن کرکے کیا کہے گی؟ وہ کہے گا مجھے نہیں پتہ؟ آپ کی بات ٹھیک ہے کہ لوگ جینوئن بھی غائب ہوسکتے ہیں، لیکن ایسے واقعات کی وجہ سے لوگ ریاست پرشک کرتے ہیں۔ پوری دنیا میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں لیکن وہاں لوگوں کا ریاست پراعتماد ہوتا ہے۔ جبری گمشدگیوں میں جو لوگ بھی ملوث ہیں،یہ وفاقی حکومت کی مرضی کے بغیرنہیں ہو سکتا۔
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے کہا لاپتہ افراد کے 8279 کیسز ہیں، انہوں نے ایک مسنگ پرسن کیس میں ملوث انٹیلی جنس افسرکی تصویردکھائی تولاپتہ شہری واپس آگیا اور بیان رکارڈ کرایا کہ وہ افغانستان چلاگیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا عدالت کس کو ذمہ دار ٹھہرائے؟ حکومت اور وفاقی کابینہ جوابدہ ہے، اٹارنی جنرل نے تجویز دی کہ آئی جی اسلام آباد سے اس متعلق رپورٹ منگوا لیں۔
چیف جسٹس نے کہا عدالت رپورٹ نہیں ایکشن چاہتی ہے۔ دو مسنگ پرسنز کے والد نے بتایا کہ ان کے بچوں کو 2016 میں یونیورسٹی کے سامنے سے اٹھایا گیا جس کے عینی شاہدین بھی موجود ہیں جنہوں نے اپنے بیانات ریکارڈ کرائے۔ پولیس نے مقدمہ بھی درج نہ کیا پھر بعد میں جبری گمشدگیوں کے کمیشن کی ہدایت پر واقعہ کی ایف آئی آر درج ہوئی۔ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں کمیشن نے اپنی فائنڈنگ میں کہا کہ یہ جبری گمشدگیوں کا کیس ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جبری گمشدگیوں کے کمیشن کا صرف یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ ایف آئی آر درج کرائے، سینکڑوں افراد جبری گمشدگیوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ ریاست نہیں کہہ سکتی کہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں، تفتیش میں کیا ہوا؟
ایمان مزاری نے کہا اگر کوئی شخص لاپتہ ہو جائے تو اس کو تلاش کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اس حوالے سے عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا وفاقی حکومت کا واضح پیغام آنا چاہیے کہ اس معاملے کوبرداشت نہیں کیا جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا پتہ بھی تو چلے کہ یہ پیغام دینا کس کو ہے؟ عدالت نے جبری گمشدگیوں کے ہائی کورٹ میں زیر سماعت کیسز کی لسٹ اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیسز کی موثر تفتیش کے لیے تین ہفتوں کی مہلت دی اورآئندہ سماعت پر 14 فروری کو حتمی دلائل طلب کر لیے۔