پاکستان
Time 19 جنوری ، 2022

پی ایس ایل نشریاتی حقوق کیس: عدالت میں اے آروائی، پی ٹی وی کی ملی بھگت کا بھانڈا پھوٹ گیا

لاہور ہائی کورٹ میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے نشریاتی حقوق کے لیے پی ٹی وی اور اے آر وائی کی شراکت داری کے خلاف درخواست پرسماعت کے دوران جیو سوپرکے وکیل نے عدالت کے سامنے دونوں ٹی وی چینلز کی ملی بھگت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔

لاہور ہائی کورٹ میں دوران سماعت جیو سوپرکے وکیل بہزاد حیدر نےاپنے دلائل میں پی ایس ایل کے نشریاتی حقوق کے حصول کے لیے اے آر وائی اور پی ٹی وی کے اشتراک میں پائی جانے والی بے ضابطگیوں کو بے نقاب کردیا۔

 انہوں نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئےکہا کہ پی ایس ایل ہمارا  وقار ہے، اسے نقصان نہیں پہنچانا چاہتے لیکن وہ عدالت کے نوٹس میں لانا چاہتے ہیں کہ پی ایس ایل کے جوائنٹ وینچر کے لیے کبھی بِڈنگ نہیں ہوئی، 10 اگست 2021 کے اظہار دلچسپی کے اشتہار  پر پی ٹی وی اور  اے آر وائی کا جو اشتراک ہوا وہ پی ایس ایل کے لیے نہیں بلکہ آئی سی سی رائٹس کے لیے تھا۔

 بہزاد حیدر نے عدالت کو بتایاکہ  پی ٹی وی اور اے آر وائی کے اشتراک میں پیپرا رولز کی بھی سنگین خلاف ورزیاں پائی گئیں، پیپرا رول 12 دو کے تحت اس شراکت کے لیے اظہار دلچسپی کا اشتہار کم از کم 2 اخبارات میں شائع ہونا چاہیے تھا لیکن یہ صرف ایک انگریزی اخبار  میں شائع ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ اظہار دلچسپی کے اشتہار کے نتیجے میں 16 ستمبر 2021 کو گروپ ایم، اے آر وائی اور پی ٹی وی کا اشتراک ہوا، 10 اگست کے اشتہار پر جواب 24 اگست کو آیا جب کہ پیپرا رول 13 دو کے تحت دونوں تاریخوں میں 15 دن کا وقفہ ضروری ہے، بہزاد حیدر نے مزیدکہا کہ اس اشتراک کے لیے رول 35 کی بھی خلاف ورزی کی گئی،انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اے آر وائی کے اسپورٹس چینل کو 14 ستمبر کو لائسنس ملا، 8 ستمبرکو بِڈ کرتے وقت یہ تک نہیں دیکھا گیا کہ اے آر وائی کے اسپورٹس چینل کے پاس لائسنس ہے یا نہیں۔ 

بہزاد حیدر نےمزیدکہا کہ اگر پی ایس ایل کے لیے اشتراک 16 ستمبرکو ہوگیا تھا تو پی ٹی وی کے ڈاکٹر نعمان نیاز نے 18 دسمبرکو بلِٹز کمپنی سے معاہدے کے لیے وزیر اطلاعات کے فائنل گو کے انتظار کا میسیج کیوں کیا؟ 10 اگست کے اشتہار کے نتیجے میں پی ٹی وی، اے آر وائی اور گروپ ایم کا جوائنٹ وینچر ہوا، اگر یہ جوائنٹ وینچر پی ایس ایل کے لیے تھا تو فائنل معاہدے میں گروپ ایم شامل کیوں نہیں تھا۔

جیو سوپر کے وکیل نے کہا کہ پی ٹی وی حکام نے اے آر وائی کو ایک ارب کا فائدہ پہنچانےکے لیے پی ٹی وی کا نقصان کیا اوریہ سب پی ٹی وی بورڈ سے چھپا کر کیا گیا، پی ٹی وی اور اے آر وائی کی شراکت داری 60 فیصد اور 40 فیصد کی بنیاد پر صرف آئی سی سی ایونٹس کے لیے ہوئی تھی، مگر آے آر وائی کو پچاس، پچاس فیصد منافعےکی بنیاد پر پی ایس ایل کا کنٹریکٹ دے دیا گیا، اس کنٹریکٹ میں اے آر وائی کا حصہ 10 فیصد بڑھا دیا گیا اور پی ٹی وی کا حصہ کم کردیا گیا، یوں سرکاری خزانے کو ایک ارب روپےکا نقصان ہو گا۔ 

 بہزاد حیدر کے دلائل مکمل ہونے پرعدالت نے پی ٹی وی، اے آر وائی اور  پی سی بی کے وکلا کے دلائل کے لیے 24 جنوری کی تاریخ مقرر کر دی، اس پر بہزاد حیدر نےکہا کہ 24 جنوری کے التوا پر مخالف فریق کہےگا کہ پی ایس ایل ہونے والا ہے، جلد فیصلہ ہونا چاہیے۔

 اس پر جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیےکہ اگر جیو سوپرکے وکیل کے دلائل ثابت ہوگئے تو عدالت معاہدہ کالعدم کرسکتی ہے، اگر پی ایس ایل ہوگیا تب بھی عدالت کیس نیب کو بھیج دےگی۔

 بہزاد حیدر نے بعد میں میڈیا کو بتایا کہ ایس ایل کے نشریاتی حقوق کے لیے اے آر وائی اور پی ٹی وی کےاشتراک میں کئی قانونی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔

مزید خبریں :