17 مارچ ، 2022
حکومت کی جانب سے اپنے منحرف ارکان کے خلاف کارروائی سے متعلق قانونی امور پر غور کیا جارہا ہے اور کوئی کارروائی نہ کرنے پر الیکشن کمیشن پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہےکہ اس کا وزیر اعظم کے انتخاب اور عدم اعتماد سےکوئی تعلق نہیں، یہ ذمہ داری اسپیکر قومی اسمبلی بطور پریذائیڈنگ آفیسر سر انجام دیتا ہے۔
پارٹی پالیسی کے خلاف جانے والے منحرف ارکان کے خلاف قانونی کارروائی کے طریقہ کار سے متعلق الیکشن کمیشن کی جانب سے تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ کسی رکن پارلیمنٹ کےانحراف پر الیکشن کمیشن کا کردار پارٹی سربراہ اور اسپیکرکی طرف سے ڈیکلیریشن موصول ہونے کے بعد شروع ہوگا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق آئین کے آرٹیکل 63(A) میں ممبران پارلیمنٹ کی نااہلی بوجہ انحراف کا طریقہ کار دیا گیا ہے، اس آرٹیکل کے مطابق پارٹی کا سربراہ تحریری طور پر متعلقہ ممبر پارلیمنٹ کے انحراف سے متعلق ڈیکلیریشن جاری کرے گا اور اس کی کاپی پریذائیڈنگ آفیسر اور چیف الیکشن کمشنر کو ارسال کرےگا۔
مزید یہ کہ انحراف کے اعلان سے پہلے پارٹی سربراہ متعلقہ ممبر کو سننےکا موقع دے گا، اس کے بعد پریزائیڈنگ آفیسر (اسپیکرقومی اسمبلی) دو دن کے اندر انحراف سے متعلق ڈیکلیریشن چیف الیکشن کمشنر کو بھجوائےگا، اور اگر وہ دو دن کے اندر ایسا نہیں کرتا تو یہ سمجھا جائےگا کہ انحراف کا ڈیکلیریشن چیف الیکشن کمشنر کو موصول ہو چکا ہےاور چیف الیکشن کمشنر ڈیکلیریشن کو کمیشن کے سامنے پیش کرےگا جس پر الیکشن کمیشن 30 یوم کے اندر فیصلہ کرےگا۔
الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا ہےکہ اگر الیکشن کمیشن کو وزیراعظم کے الیکشن کے انعقاد اور عدم اعتماد سے متعلق ضروری قانون سازی کے ذریعے با اختیار کردیا جائے اور ضروری اختیارات تفویض کردیے جائیں تو پھر الیکشن کمیشن اس فریضے کو سرانجام دینےکی صلاحیت رکھتا ہے ۔
الیکشن کمیشن نے مزید کہا ہے کہ جن معاملات اور انتخابات میں اسےاختیارات حاصل ہیں وہ ان سے بخوبی باخبر ہےاور اپنے کارہائے منصبی آئین اور قانون کے مطابق احسن طریقے سے سرانجام دے رہا ہے۔