عدم اعتماد کی کامیابی پر صدر مملکت کا مستقبل کیا ہوگا؟

صدر نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر فوری طور پر عمل کرتے ہوئے نگران حکومت کے قیام کے لیے تقاضے پورے کرنا شروع کردیے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلوں نے ان کے تمام اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا فائل فوٹو صدر عارف علوی
صدر نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر فوری طور پر عمل کرتے ہوئے نگران حکومت کے قیام کے لیے تقاضے پورے کرنا شروع کردیے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلوں نے ان کے تمام اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا فائل فوٹو صدر عارف علوی

پاکستان میں سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد کے از خود نوٹس کیس کا تاریخی فیصلہ سناکر ملکی سیاست میں ایک بار پھر ہلچل مچادی ہے اور تمام صورتحال ایک بار پھر تین اپریل والی پوزیشن پر آچکی ہے۔

اگر ہم مارچ کے مہینے کی بات کریں تو اس مہینے میں پاکستان کی سیاست نے اس وقت ایک نئی کروٹ لی جب اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع کرائی۔

اپوزیشن نے یہ قرارداد آئین کے آرٹیکل 95 اے کے تحت جمع کرائی جس کے بعد حکومت اور اپوزیشن میں طبل جنگ بج گیا۔

اسکرین گریب
اسکرین گریب

حکومت کی جانب سے ٹال مٹول کے بعد بلآخر قومی اسمبلی کا اجلاس تین اپریل کو طلب کیا گیا جس میں اپوزیشن کو اپنی فتح یقینی نظر آرہی تھی لیکن صورتحال اچانک اس وقت تبدیل ہوئی جب تحریک عدم اعتماد کے ایجنڈے پر آنے سے پہلے وزیر قانون فواد چوہدری نے وقفہ سوالات میں مبینہ دھمکی آمیز مراسلے کا ذکر کیا اور جوشیلے انداز میں تقریر کرتے ہوئے اپوزیشن کو بیرونی سازش کا آلہ کار قرار دیا۔

وزیر قانون کے پہلے سے تحریر شدہ پرچے کو پڑھنے کے بعد ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے بھی بغیر کسی تردد کے ان کے مؤقف کی تائید کی اور تحریک عدم اعتماد کو آئین کے منافی قرار دے کر مسترد کردیا۔

ڈپٹی اسپیکر  نے اجلاس  کی صدارت کیوں کی؟

یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہےکہ ڈپٹی اسپیکر نے اس اجلاس کی صدارت اس وجہ سے کی کیونکہ اپوزیشن اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف پہلے ہی تحریک عدم اعتماد جمع کراچکی تھی لہٰذا وہ اجلاس کی صدارت کے اہل نہیں تھے۔

قومی اسمبلی ٹوئٹر اکاؤنٹ
قومی اسمبلی ٹوئٹر اکاؤنٹ

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے لے کرسپریم کورٹ کے از خود نوٹس تک تمام چیزوں میں ایک شخصیت نے آناً فاناً اپنا کردار ادا کیا اور نگران حکومت کی تشکیل کا عمل شروع کردیا اور وہ شخصیت صدر مملکت عارف علوی ہیں۔

صدر کا مستقبل  کیا؟

صدر  نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر فوری طور پر عمل  کرتے ہوئے نگران  حکومت  کے قیام کے لیے تقاضے پورے کرنا شروع کردیے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلوں نے ان کے تمام  اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا جس کے بعد اب ممکنہ طور پر نئی حکومت کے قیام کی صورت میں صدر کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

اس  لیے اب یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں صدر مملکت کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا ممکنہ طور پر آنے والی موجودہ اپوزیشن کی حکومت انہیں عہدے کی مدت پوری کرنے دے گی یا پھر انہیں بھی اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

صدر کے عہدے کی مدت

آئین کے تحت وفاق پاکستان کی علامت صدر مملکت کے عہدے کی مدت 5 سال ہے اور اس کے لیے کم از کم 45 سال عمرہونا لازمی ہے جب کہ صدر بننے کے لیے مسلمان ہونا اور قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اہل ہونا بھی ضروری ہے۔

آئین کے آرٹیکل 44 اے کے تحت صدر جس دن اپنا عہدہ سنبھالے گا وہ 5 سال تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا اور اپنی میعاد ختم ہونے کے باوجود اپنے جانشین کے عہدہ سنبھالنے تک اس عہدے پر فائز رہے گا۔

صدر کو کیسے ہٹایا جاسکتا ہے؟

اگر عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے اور اپوزیشن اقتدار کے تخت پر بیٹھتی ہے تو یہ اس کا اختیار ہوگا کہ وہ صدر کو کام جاری رکھنے دے یا ان کو عہدے سے ہٹائے۔

پاکستان میں صدر کو ہٹانے کے لیے آئین کا آرٹیکل 47 صدر کے مواخذے کا طریقہ کار بتاتا ہے۔

اگر آنے والی حکومت صدر کو ہٹانا چاہتی تو اس کے لیے انہیں صدر کا مواخذہ کرنا ہوگا یا پھر صدر از خود اپنا عہدہ چھوڑ دیں تو وہ مواخذے سے بچ سکتے ہیں۔

مواخذہ کیسے ہوسکتا ہے؟

آئین کے مطابق صدر کوچار چیزوں کی بنیاد پر ان کے عہدے سے برطرف کیا جاسکتا ہے جس میں جسمانی یا دماغی نااہلیت، دستور کی خلاف ورزی یا فاش غلط روی کے کسی الزام میں ان کا مواخذہ کیا جاسکتا ہے۔

آئین کے آرٹیکل  47 کے تحت کسی بھی ایوان سینیٹ یا قومی اسمبلی کی کل رکنیت کے کم از کم نصف ارکان اسپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کو صدر کی برطرفی یا مواخذہ کرنے کے لیے قرارداد کی تحریک کرنے کے اپنے ارادے کا تحریری نوٹس دیں گے اور اس نوٹس میں اس کی نااہلیت کے کوائف یا صدر کے خلاف الزام کی وضاحت ہوگی۔

اگر اس سلسلے میں شق (2) کے تحت کوئی نوٹس چیئرمین سینیٹ کو موصول ہو تو وہ اسے فوری اسپیکر کو ارسال کردے گا، پھر اسپیکر شق (2) یا شق (3) کے تحت نوٹس موصول ہونے کے تین دن کے اندر نوٹس کی ایک نقل صدر کو بھجوائے گا۔

اسپیکر نوٹس موصول ہونے کے بعد کم از کم 7 دن کے بعد اور 14 دن سے پہلے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس طلب کرے گا۔

صدر کے مواخذے سے متعلق آئینی شقوں کا عکس
صدر کے مواخذے سے متعلق آئینی شقوں کا عکس

مشترکہ اجلاس اس بنیاد یا الزام کی تفتیش کرا سکتا ہے جس بنیاد یا الزام پر یہ اجلاس طلب کیا گیا ہو۔

آئین کے تحت یہاں صدر کو یہ حق حاصل ہوگا کہ تفتیش کے دوران وہ مشترکہ اجلاس کے سامنے خود حاضر ہو یا وکیل کے ذریعے نمائندگی کرے۔

صدر کے خلاف جمع تحریک پر تفتیش اور غورو خوض کے نتیجے میں دونوں ایوانوں کی کل رکنیت کے کم از کم دو تہائی ووٹ اس قرار داد کی منظوری میں پڑ جائیں تو صدر عہدہ سنبھالنے کا اہل نہیں رہتا۔

صدر پارلیمان میں یہ قرارداد منظور ہونے کےبعد فوری اپنا عہدہ چھوڑ دے گا۔

آئین کے آرٹیکل 46 کی شق 3 کے تحت صدر قومی اسمبلی کے اسپیکر کے نام اپنے دستخطی تحریر سے اپنے عہدے سے مستعفی ہوسکے گا۔

صدر عارف علوی پر کیا الزام عائد ہوسکتا ہے؟

موجودہ صورتحال میں اپوزیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کو جواز بناکر نگران حکومت کے لیے صدر کے اقدامات کو ان کے خلاف مواخذے کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے نگران حکومت کے قیام کے لیے صدر کے عمل کو غیر آئینی قرار دیا ہے جب کہ ان کے اسمبلی تحلیل کرنے کے عمل کو بھی کوئی آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے لہٰذا اپوزیشن عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی بنیاد پر صدر پر یہ الزام عائد کرسکتی ہے کہ وہ آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

قانونی ماہر کیا کہتے ہیں؟

قانونی ماہرین کاکہنا ہےکہ جس طرح وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد وہ اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس نہیں بھیج سکتے اسی طرح صدر بھی اپنے آئینی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل نہیں کرسکتے۔

پاکستان میں کس صدر کا مواخذہ ہوا؟

اس ضمن میں تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان میں آج تک کسی صدر کو مواخذے کے ذریعے تبدیل نہیں کیا گیا ہے تاہم آئین میں صدر کو ہٹانے کے لیے یہ گنجائش موجود ہے۔

صدر کے بعد قائم مقام صدر کی ذمہ داری کون نبھائے گا؟

پاکستان کے آئین کے تحت صدر کی برطرفی، استعفے یا وفات کی صورت میں چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر کی ذمہ داریاں انجام دے گا جب کہ چیئرمین سینیٹ اگر یہ کام سرانجام دینے سے قاصر ہوں تو اسپیکر قومی اسمبلی صدر کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔

نئے صدر کا انتخاب کتنے دن میں؟

پاکستان کے آئین کےتحت صدر کے عہدے کے لیے کم از کم 30 دن اور زیادہ سے زیادہ 60 میں انتخاب ہوگا۔

مزید خبریں :