29 جون ، 2022
وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن کیخلاف درخواستوں پر لاہور ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران لاہور ہائیکورٹ کے 5 رکنی بینچ نے قرار دیا کہ وہ سوچ کر بیٹھے ہیں کہ منحرف ارکان سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق ماضی سے ہوگا۔
لاہور ہائیکورٹ کے 5 رکنی بینچ نےحمزہ شہباز کے بطور وزیراعلیٰ انتخاب اور حلف کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔
مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے وکلا نے دلائل مکمل کیے۔ مسلم لیگ ن کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ سپریم کورٹ کے منحرف ارکان سے متعلق فیصلے پر عمل درآمد کامعاملہ ڈپٹی اسپیکر کو بھجوا سکتی ہے کیونکہ وہ پریزائیڈنگ افسر ہیں، لیکن 16 اپریل کا الیکشن غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
تحریک انصاف کے وکلاء کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کو دوسرے الیکشن کا کیس بھجوانے کیلئے حمزہ شہباز کو ڈی نوٹیفائی کرنا ضروری ہے۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شہزاد شوکت نے کہا کہ تحریکِ انصاف خود مانتی ہے کہ 16 اپریل کو الیکشن ہوا، اسی بنیاد پر منحرف ارکان کو الیکشن کمیشن نے ڈی سیٹ کیا کیونکہ انہوں نے اپنی پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ دیا۔
پی ٹی آئی کے وکلاء کا کہنا تھا کہ ان کے ارکان کو ووٹ ڈالنے ہی نہیں دیا گیا۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے کہ 25منحرف ارکان نکال دیں تو حمزہ شہباز کے 172ووٹ رہ جاتےہیں، 172 ووٹ والا وزیر اعلیٰ نہیں رہتا، عدالت کو وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنا ہو گا۔
دوران سماعت جسٹس شاہد جمیل نے ریمارکس دیے کہ اب تو پورے پاکستان کوپتہ چل گیا ہے کہ ہم سوچ کربیٹھےہیں سپریم کورٹ کے فیصلےکااطلاق ماضی سے ہوتا ہے، حمزہ کے وکیل سے پوچھناچاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق ماضی سے کیسے نہیں ہوتا؟
اس پر حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ جب تک نہ کہے اس کے فیصلے کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوتا۔
پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا عدالت اس معاملے پر ماضی یا مستقبل کے نکتے پر نہ جائے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کر دیا جائے۔
لاہور ہائیکورٹ کا فل بینچ 30 جون کو ساڑھے 12 بجے کیس پردوبارہ سماعت کرے گا۔