03 اگست ، 2022
سائنسدانوں نے لانگ کووڈ کی 3 اقسام کو دریافت کیا ہے اور ہر قسم کی اپنی علامات ہوتی ہیں۔
یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
لانگ کووڈ کی اصطلاح ایسے مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو کووڈ کو شکست دینے کے بعد بھی کئی ہفتوں یا مہینوں تک مختلف علامات کا سامنا کرتے ہیں۔
لانگ کووڈ کے مریضوں کو متعدد اقسام کی علامات کا سامنا ہوتا ہے، کنگز کالج لندن کی تحقیق میں اس کی 3 مختلف اقسام کو دریافت کیا گیا۔
ایک قسم اعصاب سے متعلق ہے، دوسری نظام تنفس جبکہ تیسری جسمانی علامات سے جڑی ہے۔
تحقیق میں کورونا وائرس کی مختلف اقسام سے بیمار ہونے والے افراد میں لانگ کووڈ کے پیٹرن کو بھی دریافت کیا گیا۔
محققین نے بتایا کہ ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ ابتدائی بیماری کے بعد مختلف المعیاد مسائل صرف ایک عارضہ نہیں بلکہ اس کی متعدد ذیلی اقسام بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان ذیلی اقسام کی وجوہات کو سمجھنے سے علاج کی حکمت عملیاں ترتیب دینے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
اس تحقیق کے دوران 1459 ایسے افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جن میں ابتدائی بیماری کے بعد بھی 12 ہفتوں تک علامات برقرار رہی تھیں۔
محققین نے ان افراد کے اعصابی نظام میں مختلف علامات جیسے تھکاوٹ، دماغی دھند اور سردرد کو دریافت کیا، یہ علامات کورونا کی قسم ایلفا اور ڈیلٹا سے متاثر افراد میں زیادہ عام تھیں۔
دوسرے گروپ میں نظام تنفس کی علامات جیسے سینے میں تکلیف اور سانس لینے میں مشکلات کو دریافت کیا گیا، جس سے پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کا عندیہ ملا۔
یہ علامات ایسے مریضوں میں زیادہ عام تھیں جو 2020 کے موسم بہار میں اوریجنل وائرس سے بیمار ہوئے تھے۔
تیسرا گروپ ان مریضوں کا تھا جن میں متعدد اقسام کی جسمانی علامات بشمول دھڑکن کی رفتار میں تبدیلی، مسلز میں تکلیف، جلد اور بالوں میں تبدیلیاں ظاہر ہوئیں۔
محققین نے بتایا کہ اس گروپ میں لانگ کووڈ کی سب سے زیادہ سنگین پیچیدگیاں متعدد اعضا میں موجود پائی گئیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسینیشن یا اس سے دور رہنے والے افراد میں لانگ کووڈ کی اقسام کی شرح ملتی جلتی تھی، مگر ویکسینیشن کے بعد یہ خطرہ کچھ حد تک کم ہوجاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ مشین لرننگ ٹیکنالوجی سے لانگ کووڈ کی علامات کی جانچ پڑتال ممکن ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ اس سے کووڈ 19 کو سمجھنے کے لیے نئے راستے کھل گئے ہیں اور ان طویل المعیاد اثرات کی روک تھام کے لیے تحقیق کی جاسکے گی۔
اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور MedRxiv پر جاری کیے گئے۔