26 جولائی ، 2022
کورونا کے نکتہ آغاز کا پتہ لگانے کے لیے کی گئی تحقیقات کے نئے تحقیقی جائزے میں کہا گیا ہے کہ کووڈ 19 کا آغاز چینی شہر ووہان کے ایک بازار سے ہوا۔
ماہرین کی جانب سے چینی شہر ووہان میں کورونا وبا کے آغاز پر کی گئی تحقیقات کا از سر نو تحقیقی جائزہ لیا گیا جن میں سے ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کورونا کے اوائلی کیسز ووہان کے ایک بازار اور اس کے آس پاس سے رپورٹ ہوئے جبکہ دوسری تحقیق میں وبا کے آئوٹ بریک کی ٹائمنگ معلوم کرنے کے لیے جینیٹک انفارمیشن کا استعمال کیا گیا تھا۔
دونوں تحقیقات کے از سر نو تحقیقی جائزے میں یہ شواہد سامنے آئے ہیں کہ کورونا کے نقطہ آغاز کے وقت چینی شہر ووہان کا ایک سی فوڈ اور جنگلی حیات سے متعلق بازار وبا کا مرکز تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ 2019 کے آخر تک جو جانور ووہان کے بازار میں فروخت کیے جا رہے تھے ان میں Sars-Cov-2 وائرس موجود تھا جو وہاں کام کرنے اور خریداری کرنے والے انسانوں میں منتقل ہوا۔
ماہرین کے مطابق تحقیقی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ 2019 کے نومبر سے دسمبر مہینے کے آغاز تک وائرس کی دو اقسام (ویریئنٹ) انسانوں کو متاثر کر چکی تھیں۔
ماہرین کی جانب سے کورونا کے نکتہ آغاز کا پتہ لگانے کے لیے کی گئی تحقیق پر 2 سال کی کوششوں کے بعد یہ معلوماتی پہلو سامنے آیا ہے، اس سے قبل ماہرین یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ اگر ووہان میں جانوروں کا بازار کورونا وبا کا مرکز تھا تو پھر ووہان میں کورونا سے متاثرہ سیکڑوں مریضوں میں بازار سے براہ راست لنک رکھنے والےمریضوں کی تعداد صرف 50 کیوں تھی؟
تحقیقی جائزے میں شامل یونیورسٹی آف گلاسکو کے پروفیسر ڈیوڈ رابرٹسن کا کہنا تھا کہ اب ہم کورونا کے بارے میں جتنا جانتے ہیں اسکے مطابق یہ بلکل اسی طرح سے ہوا کہ ووہان میں کورونا کے اوائلی مریضوں میں سے صرف 50 لوگوں کا بازار سے ڈائریکٹ کوئی لنک تھا لیکن باقی لوگ بھی باہر موجود تھے اس لیے یہ وائرس ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتے ہوئے لوگوں کو متاثر کرتا رہا اس لیے ان کا بازار سے براہ راست کوئی لنک نہیں مل سکا تھا۔
کووڈ 19 کیسز کی میپنگ کرنے والی اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کورونا سے متاثرہ افراد جن کا بازار سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا ایسے اوائلی مریضوں میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو بازار کے قریبی علاقوں میں رہائش پذیر تھے۔
پروفیسر ڈیوڈ رابرٹسن کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ اس تحقیقی جائزے کے بعد وائرس کے کسی لیب سے جاری ہونے کے حوالے سے ریکارڈ میں درستگی کر لی جائے گی۔