Time 31 اگست ، 2022
پاکستان

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی پاکستان کیلئے’جمود‘ کی پیشگوئی

آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے تحت پاکستان میں بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔ فوٹو فائل
 آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے تحت پاکستان میں بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔ فوٹو فائل

اسلام آباد: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے رواں مالی سال کیلئے پاکستان کیلئے 3.5 فیصد کی کم جی ڈی پی کی شرح نمو اور اوسطاً 19.9 فیصد مہنگائی کے ساتھ ’جمود‘ کی پیشگوئی کی ہے۔

اس نسخے سے آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے تحت پاکستان میں بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔

ایسا کوئی نسخہ دستیاب نہیں ہے کہ جون 2023 میں موجودہ پروگرام کی میعاد ختم ہونے کے بعد کاؤنٹی آئی ایم ایف پروگرام سے باہر آجائے گی۔ اگر جون 2023 کے آخر تک زرمبادلہ کے ذخائر 16.2 ارب ڈالرز کی مطلوبہ سطح تک نہ بڑھ سکے تو ملک کو ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہو گی۔

آئی ایم ایف کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پاکستان کو بیرونی مالیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کیلئے رواں مالی سال میں 41 ارب ڈالرز پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس کا مقصد کسی بھی غیر ضروری بیرونی جھٹکوں کا سامنا کرنے کے لیے ایک روک پیدا کرنا ہے۔

آزاد ماہرین اقتصادیات نے اپنے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر رواں مالی سال کے اختتام تک زرمبادلہ کے ذخائر کو 16.2 ارب ڈالرز کے مطلوبہ نشان تک نہ بڑھایا جا سکا تو پھر اگلے مالی سال 24-2023 میں ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہوگی جب نئے عام انتخابات ہوں گے اور نئی حکومت مینڈیٹ حاصل کرکے منتخب ہوگی۔

آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی نے کچھ انتہائی جری اہداف کو بھی ملا دیا جیسے گرتے ہوئے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانا جیسا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کو ذخائر کو 7.8 ارب ڈالر کی موجودہ سطح سے 16.2 ارب ڈالرز تک لے جانے کا ہدف دیا گیا تھا جو جون 2023 کے آخر تک ذخائر کی پوزیشن میں 8.4 ارب ڈالرز کا اضافہ حاصل کرنے کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت آئی ایم ایف کا تعطل پروگرام سات ماہ کے وقفے کے بعد دوبارہ بحال کر دیا گیا لیکن پروگرام کا حجم 6.5 ارب ڈالرز تک بڑھا دیا گیا اور ٹائم فریم کو ستمبر 2022 سے جون 2023 تک بڑھا دیا گیا۔

آزاد ماہرین اقتصادیات نے آئی ایم ایف کے تخمینے کو ’جمود‘ کی شرح کی علامت قرار دیا ہے جبکہ فنڈ کے عملے نے جی ڈی پی کی شرح نمو کے ہدف کو گزشتہ مالی سال کے 6 فیصد سے کم کرکے رواں مالی سال کے لئے 3.5 فیصد کر دیا۔ آئی ایم ایف نے یہ تخمینہ حالیہ شدید سیلاب سے پہلے کیا تھا جس نے رواں مالی سال کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو کے امکانات کو مزید کم کر دیا۔

آئی ایم ایف نے مہنگائی کے ہدف کو 19.9 فیصد کر دیا جبکہ اس نے اندازہ لگایا تھا کہ جون 2023 میں سی پی آئی پر مبنی افراط زر 15 فیصد کے قریب رہنے کا اندازہ ہے۔

پاکستان میں مہنگائی کا سرکاری تخمینہ رواں مالی سال کے لئے 11.5 فیصد کے قریب رہا۔ تاہم اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رواں مالی سال میں اوسطاً 19 سے 20 فیصد کی حد میں سی پی آئی پر مبنی افراط زر کا تصور کیا۔ دوم، ای ایف ایف کے تحت آئی ایم ایف پروگرام جون 2023 تک غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں 8.4 ارب ڈالرز کا اضافہ کر رہا ہے جو کہ 7.8 ارب ڈالرز سے بڑھ کر 16.2 ارب ڈالرز ہو جائے گا۔

آئی ایم ایف نے تصور کیا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا منفی 2.5 فیصد رہے گا جو رواں مالی سال کے لیے تقریباً 9ارب ڈالرز کے برابر ہے۔ رواں مالی سال کے لیے پاکستان کی غیر ملکی قرضوں کی فراہمی کی ضروریات 22.9 ارب ڈالرز تھیں اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا تخمینہ 9 ارب ڈالرز لگایا گیا تھا، اس طرح غیر ملکی فنانسنگ کی ضرورت 33 ارب ڈالرز تک بڑھ گئیں۔

اب وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ جاری مالی سال کے اختتام تک غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو 16.2 رب ڈالرز تک لے جانے کے لیے 33 ارب ڈالرز سے زائد اور 8.4 ارب ڈالرز سے زائد کا اضافہ کریں۔ رواں مالی سال کے لیے کل بیرونی ضروریات 41 ارب ڈالرز ہیں اور یہ آسان کام نہیں ہوگا۔

اگرچہ کثیرالجہتی اور دوطرفہ قرض دہندگان نے آئی ایم ایف معاہدے کے تحت اسلام آباد کو ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی لیکن اس عزم کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے اسکے لئے اکٹھے اقدام کی ضرورت ہوگی ورنہ یہ صرف ایک خواب ہی رہ جائے گا۔

آخر میں ساختی اصلاحات کا لفظ فنڈ کی پریس ریلیز میں صرف ایک بار استعمال کیا گیا جو اس بات کی واضح نشاندہی کرتا ہے کہ آئی ایم ایف کے زیراہتمام پروگرام کا فوکس پیچ ورک پر ہے لہٰذا زراعت اور صنعتی پیداوار کے حصول میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ پائیدار اور طویل مدتی بنیادوں پر آئی ایم ایف پروگرام سے نکلنے کے لیے بچت اور سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ برآمدات کو بڑھانے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

مزید خبریں :