02 اکتوبر ، 2022
ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال 4 سے 5 ہزار بچے غیر واضح جنسی شناخت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جنہیں بچپن میں ہی سرجری اور ادویات کے ذریعے نارمل زندگی گزارنے کے لائق بنایا جا سکتا ہے۔
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سندھ انسٹیٹیوٹ آٖف چائلڈ ہیلتھ پروفیسر ڈاکٹر جمال رضا کا اس حوالے کہنا ہے کہ ماہرین کے مشورے سے غیر واضح جنسی شناخت کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کے نقائص پیدائش کے فوری بعد دور کیے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غیر واضح جنسی شناخت والے 70 فیصد بچے لڑکیاں ہوتی ہیں جنہیں لڑکا ڈیکلیئر کر دیا جاتا ہے لیکن معمولی سرجری اور ادویات سے یہ لڑکیاں نارمل زندگی گزار سکتی ہیں۔
ڈاکٹر جمال رضا کا کہنا ہے کہ 20 سے 25 فیصد غیر واضح جنسی شناخت والے بچے لڑکے ہوتے ہیں، انہیں بھی بچپن میں ہی جنسی شناخت دے کر نارمل زندگی گزارنے کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر سندھ انسٹیٹیوٹ آٖف چائلڈ ہیلتھ کا مزید کہنا تھا کہ صرف 4 یا 5 فیصد بچے ایسے ہوتے ہیں جن میں مردانہ، زنانہ اعضاء ہوتے ہیں، ایسے بچوں کو بھی علاج اور توجہ سے نارمل زندگی گزارنے میں مدد دی جا سکتی ہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی کی ڈاکٹر افشاں شاہد کا اس حوالے سے مؤقف ہے کہ غیر واضح جنسی شناخت والے بچے والدین کے لیے بڑا امتحان ثابت ہوتے ہیں تاہم بچوں کی جنس معلوم کرنے کے لیے بچوں کے کروموسوم کا ٹیسٹ کرایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر افشاں شاہد کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں کو اکثر غلط جنسی شناخت دی جاتی ہے جس سے بعد میں مسائل پیدا ہوتے ہیں تاہم تھوڑی سی توجہ سے بچوں کے جنسی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔