Time 17 اکتوبر ، 2022
صحت و سائنس

ترک نژاد جوڑا کووڈ کے بعد کینسر ویکسین تیار کرنے کیلئے پرعزم

اوگر شاہین اور ازولم تورجی / فوٹو شکریہ بی بی سی
اوگر شاہین اور ازولم تورجی / فوٹو شکریہ بی بی سی

کینسر کا علاج کرنے میں مددگار ویکسینز اس دہائی کے اختتام تک دستیاب ہوں گی۔

یہ بات کورونا کی وبا کے دوران ایک کامیاب ترین کووڈ ویکسین تیار کرنے والے ترک نژاد جوڑے نے بتائی۔

جرمنی کی بائیو این ٹیک کمپنی کے بانی اوگر شاہین اور ان کی اہلیہ اوزلم تورجی نے فائزر کے ساتھ مل کر انقلابی ایم آر این اے کووڈ ویکسین تیار کی تھی اور اب ان کا کہنا ہے کہ انہیں نے ایسی پیشرفت کی ہے جس سے آنے والے برسوں میں کینسر ویکسینز کی دستیابی کا امکان بڑھ گیا ہے۔

ایک انٹرویو کے دوران اوزلم تورجی نے کہا کہ ایم آر این اے ٹیکنالوجی کے ذریعے مدافعتی نظام کو کینسر سے متاثرہ خلیات پر حملہ آور ہونے کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایم آر این اے پر مبنی کینسر ویکسینز کب تک مریض استعمال کرسکیں گے تو اوگر شاہین نے کہا کہ ایسی ویکسینز 2030 سے قبل دستیاب ہو سکتی ہیں۔

ایم آر این اے کووڈ ویکسین کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹینز کے حوالے سے خلیات کو جینیاتی پیغام دیتی ہے جبکہ مدافعتی نظام کو آگاہ کرتی ہے کہ انہیں کس کو ہدف بنانا چاہیے۔

بائیو این ٹیک کی چیف میڈیکل آفیسر اوزلم تورجی نے بتایا کہ یہی طریقہ کار کینسر خلیات کی تلاش اور انہیں ختم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

بائیو این ٹیک کی جانب سے ایم آر این اے کینسر ویکسینز پر کورونا کی وبا سے قبل ہی کام کیا جارہا تھا مگر عالمی ایمرجنسی کے باعث انہوں نے پہلے کووڈ ویکسین تیار کرنے پر کام کیا۔

اب اس کمپنی کی جانب سے متعدد کینسر ویکسینز کے کلینیکل ٹرائلز کیے جارہے ہیں۔

اوزلم تورجی نے کہا کہ فائزر/ بائیو این ٹیک کووڈ ویکسین کی تیاری اور کامیابی سے ہمارے کینسر پر کام کو بھی فائدہ ہوا۔

جرمن کمپنی کو توقع ہے کہ وہ آنتوں، جلد اور دیگر اقسام کے کینسر کا علاج تیار کرسکے گی مگر اب بھی انہیں مختلف رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

کینسر کے خلیات جو رسولی کا روپ اختیار کرلیتے ہیں، ان میں متعدد اقسام کے پروٹینز ہوتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ایک کینسر ویکسین کے لیے تمام کینسر زدہ خلیات کو ہدف بنانا بہت مشکل ہے۔

اوزلم تورجی نے بتایا کہ بائیو این ٹیک نے وبا کے دوران یہ سیکھا کہ ایم آر این اے ویکسینز کو تیزی سے کیسے تیار کیا جاسکتا ہے اور لوگوں کا مدافعتی نظام اس ٹیکنالوجی پر کس ردعمل کا اظہار کرتا ہے، جس سے ہماری کینسر ویکسین کا کام بھی تیز ہوا۔

مگر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بطور سائنسدان ہم ہمیشہ یہ کہنے سے ہچکچاتے ہیں کہ ہم کینسر کا علاج تیار کرلیں گے، ہم نے کافی پیشرفت کی ہے اور اس حوالے سے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

خیال رہے کہ اگست میں امریکا کی کمپنی موڈرنا نے بائیو این ٹیک اور فائزر کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہوئے ان پر ایم آر این اے ٹیکنالوجی چرانے کا الزام عائد کیا تھا۔

اس حوالے سے اوگر شاہین نے کہا کہ ہم نے 20 سال کی تحقیق کے دوران اس طریقہ علاج کو تشکیل دیا اور یقیناً ہم اپنے حقوق کے لیے لڑیں گے۔

مزید خبریں :