19 نومبر ، 2022
دبئی میں مقیم ارب پتی تاجر عمر فاروق ظہور اس انکشاف کے بعد پاکستانی خبروں کی سرخیوں میں ہیں کہ انہوں نے دبئی میں ایک لین دین کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کی توشہ خانہ کی قیمتی گراف گھڑی، وہ مشہور گھڑی جو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان نے عمران خان کو تحفے میں دی تھی، فرح خان سے تقریباً 2 ملین ڈالرز میں خریدی تھی۔
تو عمر فاروق ظہور کون ہیں؟ وہ پرائیویٹ جیٹ طیاروں میں کیسے اڑان بھرتے ہیں اور وہ پی ٹی آئی، پی ایم ایل این اور پی پی پی کی سینئر قیادت کے ساتھ کس طرح قریبی تعلق رکھتے ہیں؟ انہوں نے دولت کیسے بنائی اور وہ اتنے تنازعات، لڑائی جھگڑوں میں کیسے پھنس گئے اور ان کے مختلف ممالک میں کئی بڑے کیسز میں ملوث ہونے کی کیا کہانی ہے؟
عمر فاروق جیسے ہی جیو نیوز پر نمودار ہوئے، سب نے ان کی تلاش شروع کردی اور ان کے بارے میں کئی غلط اور درست خبریں شائع کیں۔تو عمر فاروق ظہور اصل میں کون ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے؟
عمر فاروق ایک کامیاب بزنس مین ہیں اور اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی دولت اس مرحلے پر لاکھوں ڈالرز میں ہے۔ انہوں نے دبئی اور کئی دوسرے ممالک میں رئیل اسٹیٹ، آئی ٹی کے کاروبار، توانائی کے منصوبوں، زراعت کے شعبے وغیرہ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ وہ مشرق وسطیٰ میں شاہی خاندان کے بہت سے ارکان کے ساتھ اور افریقہ، جنوب مشرقی ایشیا، کیریبین اور جنوبی امریکہ کے کئی سربراہان مملکت کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں۔
عمر فاروق مشرق وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا کے لئے لائبیریا کے ایمبیسڈر ایٹ لارج بھی ہیں۔ عمر فاروق ظہور اپنی سابقہ اہلیہ، ماڈل اور اداکارہ صوفیہ مرزا کے ساتھ طویل عرصے سے جاری عدالتی لڑائی کے حوالے سے کئی سالوں سے پاکستانی خبروں میں ہیں۔ جوڑے کی دو جڑواں بیٹیاں ہیں جو دبئی میں محمد بن راشد سٹی ڈسٹرکٹ ون کے ایک خاص محلے میں ظہور کے ساتھ رہتی ہیں۔
عمر فاروق ظہور کا نام 2021 میں پہلی بار پاکستانی میڈیا پر اس وقت آیا جب تمام ٹی وی چینلز نے ایف آئی اے کے حوالے سے رپورٹنگ شروع کی، جو اس وقت شہزاد اکبر کے ماتحت تھا، کہ یہ ایف آئی اے کے سابق ڈی جی بشیر میمن تھے جنہوں نے ظہور کو شاہی خاندان کے رکن کے ساتھ سرکاری دورے پر پاکستان آنے کی اجازت دی تھی۔ خبروں میں بشیر میمن اور ظہور کو جوڑا گیا اور ظہور کو قانون کا ’’مفرور‘‘ کہا گیا۔
اس کے فوراً بعد ایسی تصاویر سامنے آئیں جن میں عمر ظہور پی ٹی آئی کے وزراء فیصل واوڈا، عمر ایوب، مرحوم نعیم الحق اور دیگر سے ملاقات کرتے دکھائی دئیے۔ فیصل واوڈا نے رواں ہفتے کہا تھا کہ انہوں نے عمر فاروق ظہور سے سابق وزیر اعظم عمران خان کے دفتر کی ہدایت پر ملاقات کی تھی اور مزید کہا تھا کہ کئی سینئر حکومتی شخصیات بھی ملاقات کا حصہ تھیں۔ اس کے بعد یہ سامنے آیا کہ ظہور کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں کسی اور نے نہیں بلکہ پی ٹی آئی حکومت نے ان کی سابقہ اہلیہ کے ساتھ جھگڑے پر ڈالا تھا۔
عمر فاروق ظہور ناروے میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی پاکستانی والدین کے ہاں پیدا ہوئے۔ عمر فاروق ظہور نے ابتدائی تعلیم ناروے میں حاصل کی اور پھر تقریباً 22 سال قبل مشرق وسطیٰ چلے گئے۔ عمر فاروق ظہور کا دعویٰ ہے کہ وہ شہزاد اکبر کو اچھی طرح جانتے ہیں اور مارچ 2019 میں انہوں نے فرح شہزادی کو ان سے ملوایا تھا۔
ریکارڈز سے پتہ چلتا ہے کہ شہزاد اکبر اور عمر ظہور میں جون 2020 کے اوائل میں ایک دوسرے سے شدید تنازعات شروع ہوگئے جب وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) لاہور کے کارپوریٹ سرکل نے متعلقہ شہری خوش بخت مرزا کی شکایت موصول ہونے پر ان سے تفتیش شروع کی جنہوں نے عمر فاروق ظہور پر تقریباً 16 ارب روپے کے فراڈ اور منی لانڈرنگ کے الزامات لگائے تھے۔
شکایت میں یہ نہیں بتایا گیا کہ خوش بخت مرزا دراصل صوفیہ مرزا تھیں۔ صوفیہ مرزا نے ایف آئی اے پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے نام کی خاطر اور پاکستان کے خلاف مالیاتی جرائم کو روکنے کے لیے ظہور کے خلاف کارروائی کرے لیکن انہوں نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ ان کا سابق شوہر ہے اور یہ جوڑا عدالتی تنازع میں ملوث ہے۔ شہزاد اکبر، جو اس وقت اثاثہ جات ریکوری یونٹ (اے آر یو) کے سربراہ تھے اور ایف آئی اے کو بھی کنٹرول کرتے تھے، صوفیہ کی شکایت کابینہ میں لے گئے اور ایف آئی اے کیلئے ظہور کی جانب سے 16 ارب روپے سے زائد کے مبینہ فراڈ کی تحقیقات کرنے کی منظوری کرلی۔
ایف آئی اے نے مرزا کی شکایت پر مزید الزام لگایا کہ ظہور نے 2010 میں ناروے کے اوسلو میں مبینہ طور پر 89.2 ملین ڈالرز کا بینک فراڈ کیا، اور2014 میں برن، سوئٹزرلینڈ میں 12 ملین ڈالر کی رقم کا ایک اور فراڈ کیا، کم سن بچوں کی اسمگلنگ میں ملوث تھے، 9.37 ملین ترک لیرا کا فراڈ کیا، گھانا میں 510 ملین ڈالر کے مشکوک معاہدے پر عمل درآمد کیا، کالے دھن کی شکل میں لاکھوں ڈالر کی نقدی کے مالک ہیں، اور دبئی اور پاکستان میں کروڑوں ڈالر مالیت کے کئی مکانات اور جائیدادوں کے مالک ہیں، بشمول دبئی کے اعلیٰ درجے کے اضلاع، سیالکوٹ، گوادر اور اسلام آباد۔
جیسے ہی وفاقی کابینہ نے ظہور کے خلاف کارروائی کی منظوری دی، ایف آئی اے لاہور کے سربراہ ڈاکٹر رضوان نے ظہور کے خلاف کارروائی شروع کردی؛ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالا گیا، ایک ایف آئی آر میں ناقابل ضمانت وارنٹ قانونی تقاضے پورے کیے بغیر عدالت سے حاصل کیے گئے، اور مذکورہ ناقابل ضمانت وارنٹ کی بنیاد پر ان کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بلیک لسٹ کر دیا گیا اور ظہور کی گرفتاری کے لیے نیشنل کرائم بیورو پاکستان کی جانب سے انٹرپول کے ذریعے ریڈ نوٹس جاری کیے گئے۔
عمر فاروق ظہور جو کہ لائبیریا کے ایمبیسیڈر ایٹ لارج ہیں، نے ایف آئی اے کے خلاف قانونی مقدمہ شروع کیا اور معاملہ عدالت میں پہنچا جہاں ناقابل ضمانت وارنٹ منسوخ کردئیے گئے۔ جون 2021 میں لاہور ہائی کورٹ نے ان کے خلاف جاری کیے گئے ریڈ وارنٹ کو ختم کرنے کا حکم دیا۔ دو ہفتے قبل عمر فاروق ظہور کا نام انٹرپول کی ریڈ نوٹس لسٹ سے نکال دیا گیا جب حکومت پاکستان نے ان کے خلاف پی ٹی آئی حکومت کے تحت ایف آئی اے کی جانب سے بنایا گیا مقدمہ واپس لے لیا۔
شہزاد اکبر نے اس بات کی تردید کی ہے کہ انہوں نے فرح خان کو عمر فاروق ظہور سے ملوایا تھا اور انہوں نے عمر فاروق ظہور پر بار بار الزامات لگائے ہیں۔ عمر فاروق ظہور کا کہنا ہے کہ اب ان کے پاس وہ قیمتی گھڑی ہے جو محمد بن سلیمان نے عمران خان کو دی تھی اور پھر انہیں فروخت کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے تمام دستاویزات اور ثبوت موجود ہیں۔