14 دسمبر ، 2022
پھلیوں، دالوں، پھلوں اور سبزیوں پر مشتمل غذا کا استعمال صحت کے لیے بہت زیادہ فائدہ مند سمجھا جاتا ہے مگر اس سے بانجھ پن کے مسئلے پر قابو پانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
یہ دعویٰ آسٹریلیا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔
موناش یونیورسٹی، سن شائن کوسٹ یونیورسٹی اور ساؤتھ آسٹریلیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس طرح کی غذا (جس کا استعمال بحیرہ روم کے خطے میں عام ہوتا ہے اور اسے Mediterranean diet کہا جاتا ہے) سے بانجھ پن کے شکار ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے جبکہ بانجھ پن سے نجات کے لیے کسی قسم کے علاج کی کامیابی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
محققین کے مطابق ورم کش خصوصیات رکھنے والی یہ غذا جوڑوں کے ہاں اولاد کی پیدائش کا امکان بڑھا دیتی ہے۔
بانجھ پن دنیا بھر میں ایک بڑا مسئلہ ہے جس کا سامنا 4 کروڑ 80 لاکھ جوڑوں اور 18 کروڑ 60 لاکھ افراد (انفرادی طور پر) کو ہوتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ اولاد کی خواہش کے لیے غذائی انتخاب ایک سادہ اور مؤثر طریقہ ثابت ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اولاد کا حصول زندگی کے چند بڑے فیصلوں میں سے ایک ہوتا ہے مگر ایسا نہ ہوسکے تو جوڑوں کی زندگی بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ ورم مردوں اور خواتین دونوں میں بانجھ پن کا باعث بنتا ہے اور اسی لیے ہم ایسی غذا کی جانچ پڑتال کرنا چاہتے تھے جس سے ورم میں کمی آتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایسے شواہد دریافت کیے کہ صحت بخش چکنائی اور فلیونوئڈز (پھلوں، سبزیوں، پھلیوں یا دالوں) کا زیادہ استعمال جبکہ سرخ اور پراسیس گوشت کا محدود استعمال اولاد کے حصول میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
بحیرہ روم کے خطے میں رہنے والے افراد جو غذا استعمال کرتے ہیں اس میں اناج، زیتون کے تیل، پھلوں، سبزیوں، بیجوں، دالوں، گریوں، دہی، پنیر، مچھلی، چکن یا انڈوں کا استعمال زیادہ ہوتا ہے جبکہ سرخ گوشت کو بہت کم مقدار میں کھایا جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں موجودہ عہد میں دنیا میں مغربی طرز کی غذا زیادہ پسند کی جارہی ہے جس میں نقصان دہ چکنائی، ریفائن کاربوہائیڈریٹس اور حیوانی پروٹینز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جبکہ فائبر، وٹامنز اور منرلز کی کمی ہوتی ہے جس سے جسم میں ورم بڑھتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ورم کش غذا اور بانجھ پن سے تحفظ کے درمیان موجود تعلق کو سمجھنے سے اولاد کے خواہشمند جوڑوں کی زندگی بدل سکتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس طرح کی غذا سے اولاد کے حصول کا امکان بڑھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ تحقیق کے نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے مگر غذا میں تبدیلیاں لانے میں کوئی نقصان نہیں کیونکہ اس سے مجموعی صحت بہتر ہوگی۔