Time 19 جنوری ، 2023
پاکستان

سندھ بلدیاتی الیکشن: نتائج میں غیر ضروری تاخیرنے انتخابی عمل گہنا دیا، فافن

فوٹو: آن لائن
 فوٹو: آن لائن

اسلام آباد: فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے سندھ میں  دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے رپورٹ جاری کردی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ نتائج میں غیر ضروری تاخیر نے پرامن اور منظم انتخابی عمل کو گہنا دیا۔

فافن کے مطابق سند ھ کے مقامی حکومتوں کے انتخابات کے دوسرے مرحلےکے دوران کراچی اور حیدر آباد ڈویژن میں ووٹ ڈالے جانے کی شرح میں خاصا فرق رہا جب کہ انتخابی عمل پرامن اور نسبتاً منظم رہا تاہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی نتائج میں تاخیر کی بنا پر لگائے جانے  والے دھاندلی کے الزامات نے انتخابات کی شفافیت کو متاثر کیا ہے۔

فافن کا کہنا ہےکہ کراچی اور حیدرآباد ڈویژن کے 16 اضلاع میں کل 3 ہزار 508 نشستوں کے لیے 15 جنوری 2023 کو ہونے والے یہ انتخابات گذشتہ برس جولائی سے تاخیرکا شکار تھے، صوبے میں سیلاب اور بعد ازاں سکیورٹی اہلکاروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے تین مرتبہ انتخابات کی تاریخ تبدیل کی گئی، انتخابات سے دو روز پہلے صوبائی حکومت کی طرف سےکراچی اور حیدر آباد میں یونین کونسلوں کی تعداد مقررکرنےکا نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا تاہم الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کو قانون سے متصادم قرار دیتے ہوئے انتخاب کی تاریخ نہ بدلنےکا حکم نامہ جاری کیا، موجودہ حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں پر معترض جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا جس کی وجہ سے کراچی اور ضلع حیدرآباد  میں ووٹر ٹرن آؤٹ میں کمی واقع ہوئی۔

فافن کے مطابق عام انتخابات کے سال میں انتخابی عمل کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والے تنازعات سے اچھا تاثر پیدا نہیں ہوگا،  ان میں سے بہت سے تنازعات انتخابی قانون میں موجود کمزوریوں کی وجہ سے جنم لیتے ہیں جن کو سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے کی جانے والی انتخابی اصلاحات کے ذریعے ہی دورکیا جاسکتا ہے، شکوک و شبہات سے پاک انتخابات کے ذریعے ہی ملک میں سیاسی استحکام آسکتا ہے وگرنہ جمہوریت مزید کمزور ہوگی اور شہریوں کا جمہوری عمل پر اعتماد متزلزل رہےگا، اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ انتخابی قانون الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت خود کو حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے جائز خدشات کو دور کرنے کی کوشش کرے تاکہ ایسے انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جاسکے جن میں تمام شہری شامل ہوں اور کسی جماعت کے انتخابی بائیکاٹ کی نوبت پیش نہ آئے۔

فافن کا کہنا ہے کہ سیاسی تنازعات اور انتخابات سے متعلق غیر یقینی صورت حال کے باوجود بدین، جامشورو، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو اٰلہ یار، ٹھٹہ اور ملیر کے اضلاع میں ووٹروں کی ایک نمایاں تعداد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا البتہ کراچی سینٹرل، کراچی ایسٹ، کراچی ویسٹ ، کراچی ساؤتھ، کورنگی، حیدرآباد اور کیماڑی کے اضلاع میں ووٹر ٹرن آؤٹ نسبتاً کم رہا۔ 

فافن کے مطابق حیدرآباد ڈویژن میں ٹرن آؤٹ 40 فیصد سے زائد رہا جب کہ کراچی میں ملیر کے علاوہ 20 فیصد سے بھی کم رہا، واضح رہے کہ 2015 کے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں ٹرن آؤٹ بالترتیب 36 اور 58 فیصد تھا۔

فافن کی رپورٹ کے مطابق انتخابات کے پہلے مرحلے کے مقابلے میں حالیہ مرحلے کے دوران ووٹنگ کا عمل زیادہ منظم رہا تاہم پولنگ اسٹیشن کے اندر  اور ان کے اطراف میں انتخابی اشتہارات اور تشہیری مہم سے متعلق بے ضابطگیوں کے ساتھ ساتھ بیلٹ پیپر کے اجراء سے متعلق بے قاعدگیاں دوسرے مرحلے میں بھی برقرار رہیں۔ دوسرے مرحلے میں انتخابات کے دن کا ماحول بڑی حد تک پرامن رہا۔

 فافن کے مشاہدہ کاروں نے  پولنگ اسٹیشنوں پر تلخ کلامی کے 14 واقعات رپورٹ کیے جب کہ پہلے مرحلے کے دوران تشدد کے 55 واقعات دیکھنے میں آئے تھے جن میں مسلح جھڑپیں بھی شامل تھیں۔

فافن نےکہا ہےکہ اگرچہ دھاندلی کے الزامات کے باوجود کراچی ڈویژن کے عبوری نتائج دو دن کے اندر موصول ہو گئے تھے لیکن حیدرآباد ڈویژن کے مجموعی نتائج کا ابھی بھی انتظار ہے، واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ 10 جون 2022 کے نوٹیفکیشن کے مطابق مجموعی انتخابی نتائج کی تیاری کے لیےچار دن مختص کیےگئے تھے۔

فافن کےمشاہدہ کاروں کے مطابق پریزائیڈنگ افسران کی جانب سے تیار کردہ پولنگ اسٹیشن کے نتیجے کے فارموں ( فارم 11 ) میں کئی طرح کی خامیاں بھی دیکھنے میں آئی ہیں، فافن کو موصول ہونے کئی فارموں میں پولنگ اسٹیشنوں کے نام، رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد، مردوں اور عورتوں کے ووٹوں کی الگ الگ تعداد  اور پریزائیڈنگ افسران کے دستخط سمیت اہم معلومات درج نہیں کی گئیں۔

فافن نے حالیہ انتخابی عمل کے مشاہدے کی روشنی میں سفارش کی ہےکہ الیکشن کے دن انتخابی مہم چلانے سے متعلق ضابطہ اخلاق کے سخت نفاذ کو یقینی بنایا جائے نیز ووٹروں کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے پولنگ بوتھوں کے لیے مناسب جگہ رکھی جائے، مزیدبرآں، بیلٹ کے اجراء سے متعلق قانونی تقاضوں کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ خواتین پولنگ بوتھوں پر خواتین عملے کی دستیابی اور پولنگ اسٹیشنوں پر بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تا کہ آئندہ انتخابات میں انتخابی عمل مزید بہتر ہوسکے۔

فافن نےکہا ہےکہ دوسرے مرحلے کے دوران ہونے والے انتخابات میں مٹیاری، ٹنڈو اٰلہ یار، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، جامشورو، دادو، بدین، سجاول، ٹھٹہ، ملیر، کورنگی، کراچی ایسٹ، کراچی ساؤتھ، کراچی ویسٹ، کراچی سینٹرل، اور کیماڑی کے اضلاع  شامل ہیں،  ان اضلاع میں براہ راست انتخابات میونسپل کمیٹیوں، ٹاؤن کمیٹیوں، ضلع کونسلوں، یونین کمیٹیوں اور یونین کونسلوں کے ارکان کی کل 4,412 نشستوں کے لیے ہونا تھے جن میں سے 862 پر انتخاب بلامقابلہ رہا جب کہ 52 نشستوں پر امیدواروں کے انتقال کے باعث انتخابات ملتوی کر دیےگئے، اس کے علاوہ 23 نشستوں کے لیےکاغذات نامزدگی داخل نہیں کیےگئے، نتیجتاً 3,508 نشستوں کے لیے انتخابات کا انعقاد کیا گیا جس میں 18,108 امیدواروں نے حصہ لیا۔

فافن رپورٹ کے مطابق ان انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن نے مجموعی طور پر 8,706 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے جن میں 1,204 مردانہ ، 1,170 زنانہ اور 6,332 مشترکہ پولنگ اسٹیشن شامل تھے، ان پولنگ اسٹیشنوں میں کل 30,399 پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے جن میں 15,649 مردانہ بوتھ اور 14,750 زنانہ بوتھ تھے، ان اضلاع میں رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد 13,986,896 تھی،  الیکشن کمیشن کی جانب سے کل 2,491 (23 فیصد) پولنگ اسٹیشنوں کو انتہائی حساس جب کہ دیگر کو حساس قرار دیا گیا تھا۔

فافن کی یہ رپورٹ 343 پولنگ اسٹیشنوں (کل تعداد کا چار فیصد) سے موصول ہونے والے مشاہدات پر مبنی ہے جن میں 225 مشترکہ، 61 مردانہ اور 57 زنانہ پولنگ اسٹیشن شامل ہیں۔

 فافن نے انتخابی عمل کے مشاہدے کے لیے کل 104 تربیت یافتہ شہری مشاہدہ کاروں کو تعینات کیا تھا جن میں 66 مرد اور 38 خواتین شامل تھیں، ان مشاہدہ کاروں نے الیکشن کے دن 90 پولنگ اسٹیشنوں پر پولنگ کے آغاز ، 953 پولنگ بوتھوں پر انتخابی عملے اور سامان کی دستیابی اور 74 پولنگ اسٹیشنوں پرگنتی کے عمل کا مشاہدہ کیا نیز 1,121 ووٹروں کی شناخت اور انہیں بیلٹ پیپر کے اجراء کے مراحل کا بھی مشاہدہ کیا گیا۔ 

مزید خبریں :