06 فروری ، 2023
ایسا اکثر کہا جاتا ہے کہ امریکی خلائی ادارے ناسا نے لاکھوں ڈالرز خرچ کرکے خلا میں لکھنے کے لیے ایک پین کو تیار کیا جبکہ روسی خلا بازوں کی جانب سے سستی پینسل استعمال کی جاتی ہے۔
مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ بات ہی جھوٹی ہے۔
خلا میں پینسل کی بجائے پین کو ترجیح دینے کی کہانی کافی دلچسپ ہے۔
پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خلا میں پین کو استعمال کیوں کیا جاتا ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پینسل خلائی سفر کے لیے موزوں نہیں۔
عام استعمال کے دوران پینسل اور اس کے سکے اکثر ٹوٹ جاتے ہیں جبکہ اس کے لکڑی اور گریفائٹ (پینسل کا سکہ) یہاں وہاں پھیل جاتے ہیں جو کہ آکسیجن کے دباؤ والے خلائی کیپسول میں آتشزدگی کا باعث بن سکتے ہیں اور خلا بازوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
مگر ایسا نہیں کہ ناسا نے کبھی خلا میں پینسل کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔
1965 میں امریکی خلائی ادارے نے 34 خصوصی ڈیزائن والی پینسلز تیار کی تھیں اور اسے توقع تھی کہ اس سے خلا بازوں کو لکھنے میں مدد ملے گی۔
ایسی ایک پینسل کی قیمت 128 ڈالرز تھی، یعنی سستی نہیں تھی مگر ان کے استعمال کا تجربہ بدترین ثابت ہوا۔
خوش قسمتی سے اسی زمانے میں متبادل ٹول بھی تیار ہوگیا۔
پال فشر نامی شخص نے اسپیس پین کو ایجاد کیا تھا۔
عام پین کے مقابلے میں اس اسپیس پین میں کشش ثقل کی بجائے نوزل سے سیاہی کو نکالنے کے لیے کمپریسڈ نائٹروجن کو استعمال کیا گیا تھا۔
اس کے نتیجے میں یہ خلا میں لکھنے کے لیے بہترین ڈیوائس بن گئی بلکہ الٹا کھڑے ہونے یا زیر آب بھی اس سے لکھنا ممکن تھا۔
اس کے بعد پال فشر نے 1965 اور 1967 میں ناسا سے رابطہ کرکے اسپیس پین آزمائش کے لیے دیے۔
امریکی خلائی ادارہ اسپیس پین سے اتنا متاثر ہوا کہ ایسے 400 پین مستقبل کے مشنز کے لیے خرید لیے۔
روایات کے برعکس ناسا نے اس پین کے لیے کوئی خرچہ نہیں کیا تھا جبکہ روس نے بھی پینسل کا استعمال چھوڑ کر پال فشر کے اسپیس پین خرید لیے۔
پال فشر کی جانب سے امریکا اور روس کے خلائی اداروں کو ایک اسپیس پین 40 فیصد رعایت کے ساتھ 2.39 ڈالرز میں فروخت کیا گیا۔
پہلی بار اس پین کا استعمال 1968 میں اپولو 7 مشن کے دوران کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے انسانوں کے تمام خلائی مشنز کے لیے اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔