Time 05 اپریل ، 2023
دلچسپ و عجیب

کئی بار گانے ذہن سے چپک کیوں جاتے ہیں؟ سائنسدانوں نے وجہ جان لی

ایک تحقیق میں یہ دلچسپ دعویٰ کیا گیا / فائل فوٹو
ایک تحقیق میں یہ دلچسپ دعویٰ کیا گیا / فائل فوٹو

کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہم کوئی گانا سنتے ہیں تو اس کے بول بار بار ذہن میں ابھرنے لگتے ہیں اور سمجھ نہیں آتا کہ اسے دماغ سے کیسے نکالیں۔

اب ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آخر کچھ گانے ذہن سے چپک کیوں جاتے ہیں اور ان کو نکالنا کیسے ممکن ہے۔

آسٹریلیا کی نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کی تحقیق میں ان وجوہات کے بارے میں بتایا گیا جن کے باعث کچھ گانے کسی کیڑے کی طرح ذہن سے چپک جاتے ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ مخصوص گانے اپنی دھن کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے ذہن سے چپکنے میں کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ ان میں ایسی تکرار ہوتی ہے جو ہمارے دماغ کے لیے جانی پہچانی ہوتی ہے۔

محققین نے بتایا کہ بیشتر ایسے گانے بنیادی طور پر کورس سانگ (ایسے گانے جو کئی افراد ملکر گاتے ہیں) ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس طرح کے گانوں پر اب تک جو تحقیق ہوئی ہے اس میں یہ توجہ مرکوز نہیں کی گئی کہ گانے کا کونسا پہلو ذہن سے چپکنے کا باعث بنتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ درحقیقت زیادہ تر گانوں کی موسیقی کا اس میں کوئی کردار نہیں ہوتا بلکہ اس کی موسیقی کے اسٹرکچر میں موجود تکرار اس حوالے سے اہم ثابت ہوتی ہے۔

مگر تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ تکرار اس پہیلی کا ایک پہلو ہے، کئی اور چیزیں بھی اس حوالے سے کردار ادا کرتی ہیں، جیسے گانا نیا ہو اور اس کی موسیقی جانی پہچانی محسوس ہوتی ہو۔

اسی طرح کوئی گانا اس وقت ذہن میں بار بار ابھرتا ہے جب ہم بہت سکون کی حالت میں ہوتے ہیں اور کچھ کرنے کی بجائے خیالی پلاؤ پکا رہے ہوتے ہیں، اگر کسی کام میں مصروف ہوں تو پھر ایسا تجربہ ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایسے گانے ہوتے ہیں جو بار بار ذہن میں ابھرتے ہیں، ان کے بول ذہن میں گونجتے ہیں اور یہ پورا عمل مسلسل ہوتا ہے اور اس کا تجربہ بیشتر افراد کو ہوتا ہے۔

محققین کے مطابق بیشتر افراد اس طرح کے گانوں کو اپنے لیے مسرت بخش سمجھتے ہیں، تاہم جب انہیں موسیقی پسند نہ آئے اور گانا ذہن سے چپک جائے تو پھر وہ چڑچڑے ہو جاتے ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ اس سلسلے کو کافی حد تک شعوری طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے، جیسے اس گانے کو مکمل سن لیں یا شعوری طور پر کسی اور گانے کے بارے میں سوچنا شروع کردیں۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل میوزک اینڈ سائنس میں شائع ہوئے۔

مزید خبریں :