Time 14 مئی ، 2023
پاکستان

میثاق جمہوریت کی سالگرہ اور عمران حکومت

چارٹر فار ڈیموکریسی پر14مئی سن 2006 کو سابق وزراءاعظم میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو نے دستخط کیے تھے۔ فوٹو: فائل
چارٹر فار ڈیموکریسی پر14مئی سن 2006 کو سابق وزراءاعظم میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو نے دستخط کیے تھے۔ فوٹو: فائل

ملک میں جمہوریت کے تسلسل کی بنیاد میثاق جمہوریت پر دستخط کو آج سترہ برس مکمل ہوگئے ہیں۔ چارٹر فار ڈیموکریسی پر14مئی سن 2006 کو سابق وزراء اعظم میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو نے دستخط کیے تھے۔

ملکی سیاست پر اس تاریخی دستاویز کےاثرات کیا ہیں، یہ جاننا اس لیے ضروری ہے کیونکہ اس میں ملک کا سیاسی مستقبل دیکھا جاسکتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، سابق وزیراعظم نوازشریف اور سابق صدر آصف زرداری کے اتحاد کو لاکھ چوروں کا ٹولہ کہیں یہ حقیقت ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا اتحاد ملک میں جمہوریت پنپنے کا ذریعہ ثابت ہوا ہے۔

وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں اور ان کے لیڈر آمریت کے ڈسے ہیں اور اسی لیے اب ایک دوسرے کو نہیں آمریت کو روکنے کے لئے جڑے ہیں۔

موجودہ حکومتی اتحاد کی بنیاد سن 2006 میں آج ہی کے روز رکھی گئی تھی جب بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر لندن میں دستخط کیے تھے۔ اس میثاق کی داغ بیل جدہ میں ڈالی گئی تھی جب بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری نے جلاوطن نوازشریف سے سعودی عرب جا کر ملاقات کی تھی اور جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف مستقبل کی سیاسی حکمت عملی طے کرلی تھی۔

یہی وجہ تھی کہ میثاق جمہوریت پر دستخط کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا تھا کہ بعض سانحات سے ملک کو کچھ بڑے فائدے بھی ہوتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی آمریت کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے ہیں اور ملک کی سمت درست کرلی گئی ہے جوکہ پچاس ساٹھ برس پہلے ہی ہو جانا چاہیے تھی۔

بےنظیر بھٹو نے کہا تھا کہ اس تاریخی چارٹر فار ڈیموکریسی میں سول ملٹری تعلقات کی نوعیت طے کردی گئی ہے اور اب امید ہے کہ جس طرح دیگر ممالک میں فوج سویلین حکومت کے ماتحت ہوتی ہے، اسی طرح پاکستان میں بھی ممکن ہوگا جس کا فائدہ عوام کو ہوگا۔

میثاق جمہوریت سے پہلے کی سیاست کا ایک الگ رخ تھا

سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی بیٹی بے نظیر نے جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں اپنے والد کی پھانسی اور اپنی جلاوطنی سہی تھی۔ آمر کی اچانک طیارہ حادثے میں موت بے نظیر کو اقتدار تک تو لے آئی تھی مگر دو برس سے پہلے ہی نوازشریف نے پیپلزپارٹی حکومت کے خلاف تحریک چلا کر انہیں نکال باہر کیا تھا۔

اقتدار نوازشریف کو بھی راس نہ آیا تھا کیونکہ بے نظیر نے نوازشریف کو رائیونڈ کی راہ دکھا دی تھی۔ بے نظیر نے اقتدار پھر پا تو لیا تھا مگر نوازشریف انہیں لاڑکانہ پہنچانے میں کامیاب رہے تھے۔ جمہوریت کو ناکام بناتا کون تھا؟ دونوں کو اسکا احساس 1999 میں جنرل مشرف کی آمریت سے ہوا تھا۔

بے نظیر نے اسی آمر سے ڈیل کی تھی تو میں نے 2007 میں ان سے انٹرویو میں پوچھا کہ میثاق جمہوریت کا کیا ہوا؟ بے نظیر نے برملا کہا تھا کہ جنرل مشرف سے بات چیت کا مطلب یہ نہیں کہ وہ انہیں صدر اور خود کو وزیراعظم بنانا چاہتی ہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت بحال ہو اور تمام جلا وطن لیڈروں کی وطن واپسی ممکن ہوسکے۔

اسی این آرو کے نتیجے میں نہ صرف بے نظیر بھٹو بلکہ میاں نوازشریف کی واپسی کی راہ بھی ہموار ہوئی تھی۔ مگر بے نظیر بھٹو کو وطن واپسی پر پہلے کراچی کے علاقے کارساز پر بم دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا اور ہدف حاصل نہ ہوا تو راولپنڈی میں فائرنگ اور خود کش حملہ کر کے شہید کر دیا گیا تھا۔

بے نظیر کی شہادت بھی پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی راہیں جدا نہ کر سکی۔ میثاق جمہوریت کا تسلسل بھوربن ڈکلیریشن کی صورت میں جاری رہا جب آصف زرداری اور نوازشریف نے ججز کی بحالی اور اتحادی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنے کیلئے اعلامیہ پر دستخط کیے تھے اور کہا تھا کہ یہ اگلی نسلوں تک جائے گا۔

یہ میثاق جمہوریت ہی تھا کہ وزیراعظم کو قربان کرنے کے باوجود پیپلزپارٹی نے اپنا دور اقتدار مکمل کیا۔ اسی میثاق کی روح نے ن لیگ کو بھی پانچ سال پورے کرنا نصیب کیے تھے۔

شاید اسی میثاق سے خوفزدہ عناصر نے ’بھان متی کا کنبہ‘ جوڑ کر عمران حکومت بنائی تھی۔ وہ بھی پانچ سال پورے کرلیتی اگر عمران خان نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے ہوتے۔

مزید خبریں :