20 مارچ ، 2024
مرغی یا چکن کا گوشت دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
مگر دنیا بھر کے طبی اداروں یا فوڈ ریگولیٹرز کی جانب سے مشورہ دیا جاتا ہے کہ چکن کے کچے گوشت کو پکانے سے پہلے دھونے سے گریز کرنا چاہیے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ گوشت کو دھونے سے خطرناک بیکٹریا کچن میں ہر جگہ پھیل سکتا ہے۔
تو دھونے کی بجائے چکن کے گوشت کو براہ راست تیز آنچ پر پکانا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بیشتر افراد چکن کے گوشت کو پکانے سے قبل دھونا پسند کرتے ہیں۔
تو آخر لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں اور اس گوشت کو دھونے سے کن خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے؟
آلودگی اور درست درجہ حرارت میں کھانا نہ پکانے کو خوراک سے پھیلنے والی بیماریوں کی اہم ترین وجوہات قرار دیا جاتا ہے۔
یہ بات چکن کے گوشت کے لیے زیادہ اہم ہے کیونکہ اس پر Campylobacter اور Salmonella جیسے خطرناک بیکٹریا موجود ہوتے ہیں۔
Campylobacter بیکٹریا سے ہیضہ کا خطرہ بڑھتا ہے جبکہ Salmonella سے آنتوں کے امراض، ہیضہ، بخار اور پیٹ درد جیسے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ زیادہ تر افراد چکن کے کچے گوشت کو پکانے سے قبل دھونا کیوں پسند کرتے ہیں۔
کچھ افراد کا ماننا ہے کہ گوشت کو پکانے سے قبل دھونا ضروری ہوتا ہے تاکہ اس پر موجود گندگی کی صفائی ہوسکے۔
اسی طرح دیگر کا خیال ہے کہ سرکے یا لیموں کے عرق سے چکن کے گوشت کی صفائی بیکٹریا کو ختم کر دیتی ہے۔
مگر تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ پانی یا سرکے سے چکن کے گوشت کو دھونے سے بیکٹریا ختم نہیں ہوتے بلکہ دیگر اشیا تک ان کے پھیلنے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
ماہرین کے مطابق گوشت کو دھونے سے پانی کے ذرات کے ذریعے بیکٹریا چکن میں ہر جگہ پھیل جاتے ہیں۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ نلکے کے پانی سے گوشت کو دھونے سے بیکٹریا کے پھیلنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس کے نتیجے میں مختلف امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔
ویسے تو ماہرین کی جانب سے چکن کے کچے گوشت کو دھونے کا مشورہ نہیں دیا جاتا، مگر کچھ افراد کے لیے یہ عادت ہوتی ہے۔
تو ایسے افراد نلکے کے پانی کی بجائے پانی سے بھری بالٹی یا سنک میں گوشت کو دھونے کی کوشش کریں۔
اس کے بعد کاغذ سے اردگرد کی سطح کی صفائی کریں، جس سے آلودگی یا بیکٹریا کے پھیلنے کا خطرہ کم ہو جائے گا۔
گوشت دھونے کے بعد اپنے ہاتھوں کو بھی صابن سے اچھی طرح دھونا عادت بنائیں۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔