14 جون ، 2023
آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ اچھی صحت کے لیے روزانہ 8 گلاس پانی پینا ضروری ہے مگر کیا یہ بات واقعی درست ہے؟
ہمارے جسم کا 60 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے اور تمام جسمانی افعال کے لیے ہمیں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔
پانی اعضا سے زہریلے مواد کو خارج کرتا ہے، خلیات تک غذائی اجزا پہنچاتا ہے، جوڑوں کے لیے گریس کا کام کرتا ہے جبکہ کھانا ہضم ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
اگر آپ پانی کی مناسب مقدار کا استعمال نہ کریں تو ڈی ہائیڈریشن کے نتیجے میں سانس میں بو، سر چکرانے، ذہنی الجھن اور دیگر مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
مگر اہم سوال یہ ہے کہ اچھی صحت کے لیے ہمارے جسم کو روزانہ کتنے پانی کی ضرورت ہوتی ہے؟
اچھی صحت کے لیے روزانہ 8 گلاس پانی پینے کی بات ضروری نہیں درست ہو۔
امریکا کے انسٹیٹیوٹ آف میڈیسن آف دی نیشنل اکیڈمیز نے پانی کی مقدار کے حوالے سے چند سفارشات کی ہیں جن کے مطابق 4 سے 8 سال کے بچوں کو روزانہ 7 کپ پانی پینا چاہیے۔
9 سے 13 سال کے لڑکوں کو 10 جبکہ اسی عمر کی لڑکیوں کو 9 کپ پانی پینا چاہیے، 14 سے 18 سال کے لڑکوں کو 14 جبکہ اسی عمر کی لڑکیوں کو 10 کپ پانی پینا چاہیے۔
اسی طرح بالغ خواتین کو روزانہ 2.7 لیٹر (یا 11 کپ) جبکہ مردوں کو 3.7 لیٹر (یا 15 کپ) پانی پینا چاہیے۔
یہ واضح رہے کہ اتنی مقدار میں سیال ضروری نہیں کہ صرف پانی کے ذریعے جسم کا حصہ بنایا جائے۔
عموماً غذا سے ہی جسم کو روزانہ درکار سیال کا 20 فیصد تک حصہ مل جاتا ہے (اگر آپ پھلوں اور سبزیوں پر مشتمل غذا کا زیادہ استعمال کرتے ہیں)۔
غذا سے ہٹ کر چائے، کافی اور دیگر مشروبات سے بھی جسم کے لیے پانی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملتی ہے۔
اگر موسم گرم ہو تو پھر زیادہ پانی کی ضرورت ہوسکتی ہے خاص طور پر اگر پسینہ زیادہ آرہا ہے۔
اسی طرح موسمی بیماری جیسے نزلہ زکام، بخار یا ہیضہ ہونے پر بھی زیادہ پانی پینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کچھ امراض جیسے ہارٹ فیلیئر یا گردوں کے مخصوص امراض پر پانی کی مقدار محدود کرنے کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس کا فیصلہ ڈاکٹر سے مشورہ کرکے کریں۔
اگر آپ کو پیاس کا احساس کم ہوتا ہے تو پیشاب کی رنگت سے بھی جسم میں پانی کی کمی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اگر پیشاب کی رنگت شفاف یا ہلکی زرد ہے تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ جسم کو مناسب مقدار میں پانی دستیاب ہے البتہ گہری رنگت پر پانی پینا بہتر ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔