پاکستان

کشتی حادثہ: وزیراعظم بروقت کارروائیاں نہ روکے جانے پر برہم، تحقیقات کی پیشرفت رپورٹ طلب

متاثرہ لوگوں کا جن اضلاع سے تعلق ہے وہاں کی انتظامیہ نے ملوث ایجنٹوں کی کارروائیوں کا بروقت نوٹس کیوں نہ لیا؟ وزیراعظم شہباز شریف/ فائل فوٹو
متاثرہ لوگوں کا جن اضلاع سے تعلق ہے وہاں کی انتظامیہ نے ملوث ایجنٹوں کی کارروائیوں کا بروقت نوٹس کیوں نہ لیا؟ وزیراعظم شہباز شریف/ فائل فوٹو

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے انسانی اسمگلروں کی کارروائیاں بروقت نہ روکے جانے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت یونان کشتی واقعے پر اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزرا رانا ثنااللہ، مریم اورنگزیب اور معاون خصوصی طارق فاطمی، ڈی جی ایف آئی اے، چیف سیکرٹری آزاد جموں و کشمیر  سمیت متعلقہ حکام شریک ہوئے جب کہ اجلاس میں وزیراعظم شہبازشریف کویونان کےقریب بحیرہ روم میں کشتی الٹنے کے واقعے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے سانحہ کے ذمہ داران کو جلد کیفرکردار تک پہنچانے کی ہدایت کی اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ انسانی اسمگلروں کی کارروائیاں بروقت کیوں نہیں روکی گئیں؟ متاثرہ لوگوں کا جن اضلاع سے تعلق ہے وہاں کی انتظامیہ نے ملوث ایجنٹوں کی کارروائیوں کا بروقت نوٹس کیوں نہ لیا؟

وزیر اعظم نے  تحقیقاتی کمیٹی کو کارروائی مکمل کرکے واقعے کی جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دیتے ہوئےکہا کہ وزیر داخلہ تحقیقات کی نگرانی اور ذمہ داران کو سزا دلوانے کیلئے ضروری قانون سازی کیلئے تجاویز مرتب کریں۔

لاپتا افراد کے زندہ بچ جانے کی امیدیں دم توڑنے لگيں

یونان کشتی حادثے کو 7 روز گزرجانے کے بعد لاپتا افراد کے زندہ بچ جانے کی امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔

یونان کشتی حادثے میں ملک بھر سے اب تک 130 لاپتا افراد کی تصدیق کی جاچکی ہے جبکہ 92 متاثرہ فیملیز نے ایف آئی اے سے رابطہ کرلیا ہے۔

لاپتا افراد کے خاندانوں کے ڈی این اے لے لیے گئے

یونان کشتی حادثہ کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے لاپتا نوجوانوں کے خاندانوں کے ڈی این اے سیمپلز حاصل کرلیے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ایف آئی اے نے یونان کشتی حادثے پر وزارت خارجہ کو متاثرہ خاندانوں کا ڈی این اے فراہم کردیا ہے، وزارت خارجہ کو 98 نوجوانوں کے اہلخانہ کے ڈی این اے سیمپلز فراہم کیے گئے ہیں۔

کشتی حادثہ

یونان کے ساحلی علاقے میں 14 جون بروز بدھ کو کشتی ڈوبنے کا حادثہ ہوا تھا۔

ابتدائی طور پر کشتی ڈوبنے سے 78 افراد ہلاک ہوئے تھے لیکن مزید دو لاشیں ملنے کے بعد اموات کی تعداد 80 ہوگئی اور104 کو بچالیاگیاتھا جن میں سے 12 کا تعلق پاکستان سے ہے۔

کشتی میں پاکستانی، مصری، شامی اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 750 تارکین وطن سوار تھے۔

مزید خبریں :