05 جولائی ، 2023
دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن، ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم، ای میل سروس اور موبائل آپریٹنگ سسٹم کے طور پر کام کرنے والی کمپنی گوگل اپنے صارفین کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہے۔
جب آپ کسی گوگل اکاؤنٹ پر سائن ان ہوتے ہیں تو اپنی تمام ڈیوائسز پر موجود تفصیلات تک رسائی اس کمپنی کو دیتے ہیں۔
گوگل کی جانب سے بھی ڈیٹا کو اکٹھا کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے زور دیا جاتا ہے کہ صارفین کی پرائیویسی کا احترام کیا جاتا ہے۔
مگر اب گوگل کی پرائیویسی پالیسی میں تبدیلیاں کی گئی ہیں اور ان کے مطابق یہ کمپنی عوامی ڈیٹا کو آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی پر مبنی پراڈکٹس کی تیاری اور انہیں تربیت دینے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔
یکم جولائی سے گوگل کی نئی پرائیویسی پالیسی کا اطلاق ہوا ہے۔
اس پالیسی میں بتایا گیا ہے کہ گوگل کی جانب سے عوامی طور پر دستیاب تفصیلات کو نئی پراڈکٹس، فیچرز اور ٹیکنالوجیز کی تیاری کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
پالیسی کے مطابق اس طرح کی تفصیلات کو گوگل کے اے آئی ماڈلز کو تربیت دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا جبکہ مختلف فیچرز جیسے گوگل ٹرانسلیٹ، بارڈ اور کلاؤڈ اے آئی وغیرہ کے لیے بھی یہ ڈیٹا استعمال ہوگا۔
پرانی پرائیویسی پالیسی میں اس حوالے سے کہا گیا تھا کہ عوامی طور پر دستیاب تفصیلات کو گوگل کے لینگوئج ماڈلز کی تربیت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ پرائیویسی پالیسی میں تبدیلیوں سے صارف کے لیے کچھ تبدیل نہیں ہوگا، مگر اس سے عندیہ ملتا ہے کہ کمپنی کی جانب سے اے آئی ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ کام کیا جا رہا ہے اور سرچنگ کے بارے میں عوامی رویہ اس حوالے سے اہم کردار ادا کرے گا۔
گوگل کی جانب سے اے آئی شاپنگ، گوگل لینس فیچرز اور ٹیکسٹ ٹو میوزک جنریٹر وغیرہ پر کام کیا جا رہا ہے۔
اسی طرح گوگل کا اے آئی چیٹ بوٹ بارڈ بھی اب دنیا بھر میں صارفین کو دستیاب ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ کمپنی اے آئی ٹیکنالوجی مبنی سرچ انجن کو بھی تیار کر رہی ہے۔